الیکشن نتائج سامنے ہیں، کون جیتا اور کون ہارا یہ بعد کی بات ہے ۔ کیونکہ اس جیت اور ہار کے اتنے پہلو ہیں جو اپنے آپ میں کچھ حساس نوعیت کے ہیں، کچھ پیچیدہ ہیں جبکہ کچھ کا تعلق علاقائی ہے۔ آنے والے ایام میں ان سبھی پہلوئوں پر بات ہوتی رہیگی، تبصرے سامنے آتے رہیں گے، سیاسی پنڈت اور ماہرین تجزیہ کرتے رہیں گے لیکن ان سے قطع نظر اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے کہ زخمی شیر زیادہ نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ زخمی شیر کون ہے وہ محتاج بیاں نہیں کیونکہ وہ الیکشن عمل کے دوران بھی اور اس سے قبل بھی مسلسل اور قدم روک کردعویٰ کرتا رہا کہ سرکار انہی کی ہوگی اور جو الیکشن جیت گئے ان کے بارے میں مسلسل یہی دعویٰ یا الزام لگایا جاتا رہا کہ انہوںنے جموںوکشمیر کو نہ صرف لوٹا بلکہ علیحدگی پسندوں کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ اب عوام نے بیلٹ اور جمہوری اقدار پر اپنا غیر متزلزل اعتماد کا زبردست مظاہرہ کرکے جو پیغام دیا وہ دوٹوک ، صاف شفاف اور واضح ہے۔
فی الحال رُخ کسی اور سمت کی طرف کرتے ہیں۔ابھی جبکہ ووٹ شماری میں محض چند ہی گھنٹے باقی رہ گئے تھے اور لوگ بڑی بے صبری کے ساتھ اُس گھڑی کا انتظار کررہے تھے کہ کب ووٹ شماری شروع ہو۔ کشمیر نشین دوسیاستدانوں نے یکے بعد دیگرے کچھ یکساں نوعیت کے بیانات دے کر نہ صرف عوامی حلقوں بلکہ سیاسی حلقوں کی توجہ اپنے بیانات کی طرف مبذول کرکے حیران کردیا۔ انجینئر رشید نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ حکومت کی تشکیل کو فی الحال حاشیہ پر رکھا جائے اور تمام پارٹیاں پہلے ریاستی درجہ کی بحالی کی مانگ کرکے اس بحالی کو یقین بنائیں۔
اپنی پارٹی کے نائب صدر اور سابق ادوار میں وزارتی منصبوں پر فائز رہ چکے ٹنگمرگ کے غلام حسن میر نے بھی سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا کہ وہ حکومت کی تشکیل میںجلد بازی نہ کریں بلکہ متحد ہو کر پہلے ریاستی درجہ کے لئے جدوجہد کریں۔ انہوںنے پارٹیوں کو اس مقصد کے لئے ایک جٹ ہو کر جدوجہدکرنے کا مشورہ دیا۔
دونوں سیاستدانوں کے اس نوعیت کی بیان بازی پر جہاں ہر حلقہ حیرت زدہ ہے وہیں ایسے بیانات کو مضحکہ خیز اور سیاسی لچر نویسی کا شاندار مظاہرہ قرار دیا جارہا ہے۔ پھر سوال یہ بھی کیاجارہا ہے کہ ریاستی درجہ کی بحالی کیلئے متحد ہونازیادہ ضروری تھا یا ووٹوں کی تقسیم درتقسیم کو، جس تقسیم میں ان دونوں کا بہت بڑا کردار ریکارڈ پر موجود ہے ۔ کیا کشمیر گذشتہ کافی عرصہ سے سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ نہیں کرتا رہا کہ وہ موجودہ حالات کی سنگینی کا اپنے اندر احساس کرکے کشمیرکے حال اور مستقبل کے وسیع تر تناظرمیں ایک جٹ ہوجائیں اور کشمیر کے بارے میں ایک متفقہ نریٹو وضع کرکے آگے بڑھیں۔ لیکن کیا کسی سیاسی لیڈر نے عوام کی اس خواہش کا احترام کیا۔ اس کے برعکس بانت بانت کی بولیاں بولی جاتی رہی، کسی آقا کی چاہتوں اور خواہشات کی تکمیل کی سمت میں اپنے سیاسی نریٹو کو عوام کے سامنے لایا جاتارہا، پہلے دعویٰ کیا جاتار ہا کہ دفعہ ۳۷۰؍ وغیرہ کا خاتمہ وقت کی ضروت تھی پھر اپنے سیاسی نریٹو کے دفاع میں کئی دعویٰ کئے جاتے رہے جو وقت گذرتے ایک ایک کرکے جھوٹ ، گمراہ کن اور عوامی جذبات کا استحصال سے عبارت ثابت ہوکر زمین بوس ہوتے رہے ۔ پارلیمانی الیکشن میں شکست اور ہزیمت سے کوئی عبرت حاصل نہیںکی اور اسمبلی الیکشن کے میدان میں چھلانگیں مارتے رہے ، اب نتائج سامنے ہیں۔
بُنیادی سوال یہ ہے کہ غلام حسن میر اور انجینئر رشید کس مقصد کو بُنیاد بناکر حکومت کی تشکیل فی الحال التوا میں رکھنے کا وکالت نامہ ہاتھ میں تھام کر ایک نئے روپ میں میدان میں اُترے؟ کیا انہیں یہ جانکاری یا علمیت نہیں کہ الیکشن نتائج کے بعد حکومت کی تشکیل ایک آئینی ضرورت ہے جس کے لئے ضابطہ کا رپہلے سے مقرر ہے۔ انجینئر رشید کو سیاست میں کمسن یا نابالغ سمجھ کر اس کی یہ خطا ، جو بادی النظرمیں خطانہیں بلکہ کسی اور کا ایجنڈا ہے، درگذر کی جاسکتی ہے لیکن غلا م حسن میر جو سابق ادوار میں وزارتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، سرکاری خزانہ کا ہر اعتبار سے مراعات یافتہ رہا ہے، بقول ایک سابق فوجی آفیسر کے اس کی حیثیت کشمیر میں ہمارے (ہندوستان) کے بھگوان کی سی ہے سے اس نوعیت کی فاش حرکت کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔
غالباً انجینئر رشید کو یہ توقع تھی کہ نتائج اس کی پارٹی کے ہرنامزد اُمیدوار کی کامیابی کی صورت میں سامنے آئینگے لہٰذااس متوقع کامیابی کے گھوڑے پر سوار ہوکر انہوںنے اپنی خوش فہمی میں اس نوعیت کا تیر چلا دیا؟ جو نشانے پر تو نہیں لگا البتہ اس کی اعتباریت اور سیاسی شعور کی پختگی کے آگے کچھ نئے سوالیہ کھڑے ضرور کئے ہیں۔ اس حوالہ سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ انجینئر رشید الیکشن نتائج سے قبل خود کو کنگ میکر کی بجائے کنگ کے طور پیش کرتے رہے ۔ لیکن حال کے اس کنگ کو اپنے پیروں تلے کی زمین ہے بھی کہ نہیں کا کچھ اندازہ نہیں۔ شاید وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا تھے کہ پارلیمانی الیکشن میں وہ ۱۴؍ اسمبلی حلقوں سے کامیابی کے جھنڈے گاڈ چکا ہے لہٰذا ان کے نامزد اُمیدواروں کو بھی ان ہی حلقوں سے کامیابی ملے گی، جو ملی نہیں، اس کے حوالہ سے افسوس تواس بات پر کیا جاسکتاہے کہ وہ کشمیرمیں زبان زد عام ’’گوسان تمل‘‘ کی ضرب المثل کو ملحوظ خاطرنہیں رکھ سکے۔
بہرحال نتائج نے بیک وقت جو کئی پیغامات دیئے ہیں ان پیغامات کا معنی، مفہوم اور انہیں سمجھنے کیلئے ان کا تجزیہ کرنے کیلئے کچھ وقت درکار ہے۔ البتہ جو کچھ لوگ سودا بازی کی نیت سے بحیثیت مختلف روپوں میںالیکشن میدان میں اُترے ہیں ان کیلئے بھی کئی ایک پیغامات پوشیدہ ہیں۔
بے شک کشمیر کے نام پر ماضی میں سیاسی پارٹیاں سودا بازی کا میدان سجاتی رہی ہیں لیکن وہ اُن ادوار کی کہانی ہے ا ب کی بار کہانی کچھ اور ہے۔ عوا م نے اپنی رائے کا اظہار کرکے جہاں سوداگر نما سیاستدانوں کو مسترد کردیا وہاںاُن پر یہ بات بھی واضح کردی کہ آج کا دور بخشی غلام محمد کے دور سے بالکل الگ ، منفرد اور مختلف ہے ، اُس وقت جو سوچ اور اپروچ تھا آج کی سوچ اور اپروچ ان سے مختلف ہے۔ اُ س دور میں اشوز کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی بلکہ لوگ آنکھیں بند کرکے تسخیر شدہ بھیڑ بکریوں کا سا ریورڈ کا طرز عمل اختیار کرکے ہر صحیح یا غلط پر لبیک کہا کرتے تھے لیکن آج اشوز اور حساسیت کو اہمیت دی جارہی ہے۔ سرمایہ اور شراب کی تقسیم کے بل بوتے پر اشوز کو حاشیہ پر رکھنے کی کوئی بھی کوشش لمحاتی تو ہوسکتی ہیں دیرپا نہیں!
۔۔۔