الیکشن کی گہما گہمی اپنی جگہ لیکن یہ گہما گہمی ایک ایسے مرحلہ میںداخل ہوکر اپنی پوری رفتار کے ساتھ پیش قدمی کررہی ہے کہ آنے والے ایام میں اس کے کس نوعیت کے نتائج برآمد ہوں گے یا ہوسکتے ہیں ، اُن کے بارے میں محض ایک سرسری تصور ہی کیاجاسکتا ہے جو کسی بھی حوالہ سے کشمیرا ورکشمیری عوام کے وسیع تر مفادات، حقوق کے تحفظ اور سب سے بڑھ کر امن، ترقیاتی عمل اور روزگار کے تعلق سے کسی ضمانت سے عبارت ہرگز نہیںہوگا۔
چنائو پراسیس کے ایک بُنیادی حصے کے تعلق سے کم وبیش ہر پارٹی نے اپنا اپنا چنائو منشور جاری کردیا ہے۔ ان چنائو منشور وں میںعوام سے وعدے بھی کئے گئے ہیں، بلند وبانگ دعوئوں کی برسات کے وعدے بھی موجود ہیں، بجلی سمیت مختلف شعبوں کے تعلق سے مفت خوری اور مراعات کی بھی یقین دہانی ہے، حقوق کی بازیابی کی بھی بات ان میں شامل ہے وہ سب کچھ ہے جو درکار ہے لیکن وہ نہیں ہے جس کی حیثیت بُنیادی اور لازمی ہے۔ پہلے الیکشن کے انعقاد کے مطالبات کو ریاستی درجہ کی بحالی کے ساتھ مشروط کیاجاتا رہا، کچھ پارٹیوں کے سربراہوں نے یہاں تک اعلان کیا کہ وہ یوٹی حیثیت کے ہوتے خود الیکشن کاحصہ نہیں بنے گے کیونکہ بقول ان کے مجوزہ اسمبلی کی حیثیت کسی میونسپل کونسل سے زیادہ نہیں ہوگی لیکن اب ریاستی درجہ کی بحال اور اختیارات کی واپسی کو انتخابات کے بعد کی لڑائی قرار دیاجارہاہے ، الیکشن میںکودنے کے حوالہ سے پارٹی کا دبائو قرار دیاجارہا ہے۔
یہ ایک تصویر ہے۔ تصویر کے ویسے دوہی رُخ ہوتے ہیں لیکن کشمیرکے حوالہ سے یہ تصویر ہمہ رُخی ہے۔ ایک رُخ یہ بھی ہے کہ کم وبیش ہر پارٹی ایک دوسرے پران کے چنائو منشور کی کاپی کرکے عوام کے سامنے پیش کرنے یا چربہ قرار دینے یہاںتک کہ ایک پارٹی نے اپنی دوسری مدمقابل پارٹی پر اپنے چنائو منشور میں شامل لفظ’’ترقی اور عزت‘‘ کی اصطلاح کو چراکر اپنے منشور کاحصہ بنانے کا الزام عائد کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کی ترقی اور عزت ایسی اصطلاحات کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق ملکیت یا دوسرے الفاظ میں اجارہ داری پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف قراردیا ہے۔
ایک جنگ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے درمیان آپسی انتخابی گٹھ جوڑ، چنائو منشور اور دوسرے وابستہ امورات کے حوالہ سے جاری ہے۔ این سی کے لیڈر عمرعبداللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ محبوبہ جی نے اپنے چنائو منشور میں انہی اشوز کو درج کیا ہے جو این سی کے چنائو منشور میںموجودہے۔ لہٰذا پی ڈی پی کو چاہئے کہ وہ اپنے اُمیدوار میدان سے ہٹا لے اور گٹھ بندھن کی حمایت کرے۔ لیکن پی ڈی پی کا کہنا ہے کہ یہ ان کا اپنا اختراعی منشور ہے جس میںاور باتوں کے علاوہ ’’ مسئلہ کشمیر‘‘ کا حل تلاش کرنے کی مخصوص طور سے بات کی گئی ہے۔
دونو ں پارٹیاں اس بات کے حق میںہے کہ ممنوعہ جماعت اسلامی پر سے عائد پابندی ہٹائی جائے تاکہ وہ بحیثیت جماعت الیکشن میںحصہ لے سکے۔ یہ ایک ایسا اشو ہے جو بہت ہی حساس ہے، پیچیدہ ہے اور جس کے بیک وقت کئی پہلوہیں۔ جماعت کو ممنوعہ قرار کیوں دیاگیا، اس جماعت سے وابستہ لوگوں کو دہشت گردی کے حوالہ سے ایکوسسٹم قرار دے کر ملوثین کی ایک بڑی تعداد کو دہشت گردی کے حوالہ سے مالیات فراہم کرنے اور دوسرے کئی معاملات کی پاداش میں املاک سر بہ مہر ہے اس کے بارے میں دونوںپارٹیاں خاموش ہیں البتہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کا یہ اعتراف اب ریکارڈ پرآگیا ہے کہ ممنوعہ جماعت کے حامیوں نے پارلیمانی الیکشن میں انجینئر رشید کے حق میں ووٹ دے کر واضح پیغام رائے شماری کے موقف کے حوالہ سے دیا ہے۔
جب بات تصویر کی ہمہ رُخی کے تعلق سے کی جاتی ہے تو یہ بات بھی توجہ طلب بن جاتی ہے کہ کچھ چنائو منشوروں سے منسوب ایسی باتیں بھی کی جارہی ہیں یا اشوز کو منسوب کیاجارہاہے جن کاکوئی حوالہ چنائو منشوروں میں نہیںہے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود بڑے پیمانے پر بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے اور مسلسل دعویٰ کیاجارہاہے کہ کشمیر نشین کچھ پارٹیوں نے اپنے چنائو منشوروں میں ان اشوز کا تذکرہ کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس بیان بازی کو چنائو منشوروں کے ساتھ منسوب کرنے کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ عوام کو گمراہ کیاجائے،ان کے جذبات اور عقیدوں کو بھڑکایا جائے تاکہ الیکشن میںووٹ حاصل کرنے میںکامیابی حاصل کی جاسکے۔ اس حوالہ سے یہ بات بھی اہم اورغور طلب ہے کہ جن باتوں کو اُچھالا جارہاہے اُن کی ایک تاریخی اور مسلمہ حقیقت ہے جنہیںآج کی گمراہ کن بیان بازی کے سہارے اندھیرے کی نذر کرنا ممکن نہیں۔
یہ امر بھی توجہ طلب اور غور طلب ہے کہ کچھ ملکی سطح کی ایسی تنظیمیں بھی الیکشن میدان میں کود رہی ہے جن کا ماضی اور ماضی قریب میںجموںوکشمیر کے معاملات میںکوئی کردار نہیںرہا۔ شیو سینا، این سی پی، جنتا دل (یو) عاپ وغیرہ تو محض چند نام ہیں۔یہ پارٹیاں جموںوکشمیر کے الیکشن میدان کا حصہ بن کراپنے یاکسی اور کے کن عزائم،ایجنڈااور سیاسی مشن کی تکمیل چاہتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ الیکشن کے تالاب میں کود کراس کو پراگندہ ہی کرسکتی ہیں۔
الیکشن کی گہماگہمی کے تعلق سے ان سب سرگرمیوں وغیرہ کے پیچھے یہ خاص مقصد بھی بادی النظرمیں محسوس کیاجارہا ہے یا یہ تاثر بھی قائم ہوتا جارہاہے کہ کچھ غیبی ہاتھ نہیں چاہتے کہ جموں وکشمیر استحکام کے راستے پر چل پڑے، عوام کی منتخبہ حکومت بھرپور قوت کے ساتھ زمام اقتدار سنبھالنے کی پوزیشن میںآسکے، اسمبلی مچھلی بازار کے سے ہی روپ میں آنکھوں کے سامنے رہے، حکومت بے اختیار اور فیصلہ سازی کے حوالہ سے لنگڑی رہے، عوام کی جو بھی منتخبہ حکومت اقتدارمیں آجائے اس کی لڑائی احتیارات کی واپسی، ریاستی درجہ کی بحالی اور دوسرے حقوق کے تحفظ کی جنگ میںآنے والے سالہاسالوں تک اُلجھتی رہے۔
دوسری طرف کم وبیش ہر سیاسی جماعت کا موقف اور اپروچ ڈانواڈول ہے، اشوز کی بات تو ہورہی ہے لیکن حصول اور حل کی سمت میں اسمبلی الیکشن اور حکومت کی تشکیل کو پہلی ترجیح دی جارہی ہے، باقی ماندہ حساس اور غیرحساس معاملات کو یہ کہکر ثانوی درجہ کی حیثیت کا حامل قرار دیاجارہا ہے کہ ان کے لئے لڑائی لڑتے رہینگے چاہئے سپریم کورٹ کا بھی دروازہ کھٹکھٹانہ پڑے ۔ پارٹیوں کا یہ اندازفکر اور اپروچ اقتدار کی بھوک اور ہوس کے سوا اور کچھ نہیں، عمرعبداللہ اور محبوبہ جی کا اب اپنے پہلے فیصلے کہ میونسپل کونسل کی مواقف اسمبلی کا حصہ نہیں بننا چاہتے سے یوٹرن لیتے ہوئے پارٹی کا دبائو ہے کا نریٹو حصول اقتدار کی شدید خواہش کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے۔
رہی بات بخاری صاحب کی تو وہ اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں۔ اب اپنے بل بوتے پر کسی کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو ئے بغیر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں لیکن اب این سی، پی ڈی پی، کانگریس وغیرہ کو بی جے پی کی ہی اتحادی قرار دے رہے ہیں۔