لوگوں کی صف میں موجود اور کھڑے بہت سارے ایسے بھی ہیں جو اپنے اندر کے درندہ صفت کو ظاہر نہ کرنے میں پیشہ ورانہ تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مدتوں سے ملک کی گنگا جمنی تہذیب، کثرت میں وحدت اور عورت ذات اور اس کی چادر اور چار دیواری کے تقدس اور حرمت کو پارہ پارہ کرنے کی سمت میں نہ صرف موقع کی تلاش میں رہتے ہیں بلکہ اپنے مجرمانہ ظاہر وباطن ، انداز فکر اور طرزعمل کو چھپانے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ان درندہ صفت لوگوں کو ملک کی بعض سیاسی پارٹیوں، نیم مذہبی اور خود ساختہ بھگوانوں اور نام نہاد روحانی پیشوائوں کے ساتھ ساتھ بعض سیاسی لیڈروں کی سرپرستی اور آشیرواد حاصل ہے۔اس حوالہ سے حالیہ کئی برسوں کے دوران پیش آمدہ عصمت دری، قتل، اغوا اور دوسری نوعیت کی مجرمانہ اور حیوانیت سے عبارت سرگرمیوں جن کے بارے میں بھیانک معاملات اور مجرموں کے طرزعمل کے تعلق سے حقائق او رطریقہ جرم سے متعلق تفصیلات سامنے آتی رہی ہیں نہ صرف ان کے مجرمانہ حجم کے تعلق سے بھیانک، خوفناک، رونگٹے کھڑے کردینے والے اور شرمناک ہیں کہ آج دُنیا کے کچھ حصوں میں ہندوستان کی’’ریپستان‘‘ کے نام سے بھی ایک شناخت بن چکی ہے۔
کولکتہ میں میڈیکل انٹرنشپ میں معمور ڈاکٹر کی عصمت دری اور لرزہ خیز قتل کے معاملے نے پورے ملک کو ہلاکے رکھدیا ہے جبکہ اس مخصوص واقعہ کے خلاف ملک بھر میں ڈاکٹروں کے احتجاجی مظاہرے اور ہڑتال جاری ہے۔ جموںوکشمیر میں بھی احتجاجی مظاہرے اور ہڑتال جاری ہے۔ لیکن بُنیادی سوال یہ ہے کہ ملک گیر سطح کے ان احتجاجی مظاہروں، سیاہ پر چموں کی نمائش اورہڑتالوںسے کیا کوئی ان روح فرسا اور لرزہ خیز واقعات کاسنجیدہ نوٹس لینے ، انسدادی اقدامات اُٹھانے اور پھر مجرموںکو سخت سے سخت ترین سزائیں دلوانے کی سمت میں خودکو وقف کرے گا؟ حکومتوں اور اپوزیشن اس عدم سنجیدگی اور اپنے اپنے معاونتی کرداروں کے حوالوں سے ایک پیج پر ہیں البتہ اس نوعیت کے معاملات کو اپنی اپنی سیاسی ضرورتوں اور سیاسی اہداف کے حوالوں سے اُچھال رہے ہیں، سیاست کررہے ہیں بلکہ اب ایک تاثر یہ بھی عوامی حلقوں میں مستحکم ہوتا جارہا ہے کہ حکومتیں ایک دوسرے کو گرانے اور ذلیل کرنے کی بھی برابر برابر کوششیں کررہی ہیں۔
۱۲؍ سال قبل نربھے کے معاملے پر سیاست کی گئی، اُس معصوم کو رات دیر گئے بس میں نشانہ بنایاگیا تھا، گجرات میںبقلیس بانو کی عصمت دری میںملوث زائد از درجن بھر سزا یافتہ مجرموں کو حکومت گجرات نے رہا کردیا اور باہر آکر حکمران جماعت سے وابستہ ورکروں اور لیڈروں نے ان کا والہا نہ استقبال کیا ، گلے میں مالائیں پہنائی اور اعلان کیا کہ سنا تن میں یقین رکھنے والے عصمت در نہیںہوسکتے،بہرحال سپریم کورٹ نے ان مجرموں کو واپس جیل کی نذر کرنے کا حکم سنایا، ماضی قریب میں پیش آمدہ کس کس اغوا ،عصمت دری اور پھر لرزہ خیز ہلاکت کے معاملے کا حوالہ دیاجائے، اگر شردھا نامی لڑکی کو ’لوجہاد‘ کی آڑ میں درندہ صفت اس کے مسلمان دوست نے عزت لوٹ کر جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دیا اور اس شرمناک اور لرزہ خیز معاملے پر سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں نے قاتل کے اس فعل کو مسلمانوں کی فطرت قراردیا تو رکھشا بندھن کے مقدس رشتے اور تہوار کو منانے والے اور یقین رکھنے والے ان مجرموں کو کس فطرت سے وابستہ یا حصہ سمجھا جائے۔
ابھی جبکہ کولکتہ کے لرزہ خیز معاملے کی صدائے بازگشت کی شدت کسی بھی حوالہ سے کم نہیں پڑرہی ہے، ملک کے کچھ مختلف حصوں سے محض گذشتہ ۲۴؍ گھنٹے کے دوران مزید کچھ اغوا، عصمت دری اور ہراسگی کے شرمناک واقعات منظرعام پر آئے ہیں۔ دہرہ دون میں ایک معصوم کی اجتماعی عصمت دری کا شرمناک معاملہ سامنے آیا ہے، اس میںملوث پانچ مجرموں کو گرفتار کرلیاگیا جن میں دو بس ڈرائیور اور بس اسٹینڈ کا کیشربھی شامل ہے۔ تامل ناڈو میں ایک کالج سے وابستہ ایک طالبہ کی عصمت دری اور ۱۳؍ دوسری لڑکیوں کی ہراسگی کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔ اس کالج کا پرنسپل اپنے دو ماتحت ٹیچروں کے بشمول ۱۱؍ دوسرے افراد کے ساتھ حراست میں لیاگیا۔ اسی طرح روہتک اسپتال میںزیر تربیت ایک طالبہ کو اس کے انچارج ڈاکٹرنے اغوا کر کے عصمت لوٹ لی۔ یہ سارے واقعات گذرے محض چند گھنٹوں کے دوران منظرعام پر آئے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا کہ کولکتہ میں پیش آمدہ صدمہ خیز معاملہ پر عوامی ردعمل اور مجروح احساسات اس ذہنیت کے حیوان اور درندہ صفت مجرموں کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
بُنیادی اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک ہندوستان میں اب کچھ مدت بلکہ کچھ دہائیوں سے اغوا، عصمت دری، ہراسگی اور قتل کے معاملات کو نہ صرف ایک سیاسی بلکہ مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے بطور ہتھیار استعمال کرنے کا چلن جائز تصور کیاجارہاہے بلکہ اس کی سیاسی اور انتظامی سطح پر پذیرائی بھی کی جارہی ہے۔ کشمیر نے اس چلن اور پذیرائی کو ۱۹۹۰ء کے ابتدائی ایام میں اُسوقت مشاہدہ کیا جب کنن اور پوشہ پورہ میںکریک ڈائون کی آڑ میں درجنوں خواتین اور بچیوں کو وردی پوشوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا، اُن کے اس مجرمانہ فعل کو اُس وقت کے دہشت گردوں کا پروپیگنڈہ قرار دلوانے کیلئے دہلی سے کچھ سابق بیروکریٹوں اور ایک سرکردہ صحافی پر مشتمل ٹیم کو یہاں روانہ کیاگیا جس نے اس واقعہ کو جنگجوئوں کی کارستانی قراردے کر عصمت دری میںملوث اہلکاروں کو دودھ کا دھلا کے طور پیش کیا۔
اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ سرینگر کے مضافات میں چھانہ پورہ میںپیش آیا جس کی تحقیقات کیلئے جارج فرنانڈیز ایسی سیاسی اور قدرآور شخصیت نے رات کی تاریکی میں بغیر کسی سکیورٹی کے جائے واردات پر جاکر متاثرین سے مل کر ان کی روئیداد سنی اور سن کر روپڑے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو جارج فرنانڈیز کے ا س دورے کی علمیت ہے کیونکہ جائے واردات کی جانب روانہ ہونے سے قبل فرنانڈیز انہی کے پاس تھے اور ڈاکٹر فاروق کے گھر سے ہی روانہ ہوئے تھے۔ ان دونوں واقعات میں ملوث کسی کو سزا نہیں دی گئی کیونکہ عذر یہ پیش کیا جاتا رہا کہ اگر سزا ئیں دی گئیں تو اہلکاروں کے حوصلے پست ہوجائیں گے۔اس طرح عملی اور اخلاقی اعتبار سے عصمت دری کے واقعات میں ملوثین کی نہ صرف سرپرستی کی گئی بلکہ ان کی مجرمانہ سرگرمیوں کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی۔
بہرحال عصمت دری ، اغوا، ہراسگی ایسے معاملات کے حوالہ سے دعویٰ کیاجارہاہے کہ ان واقعات کی روزانہ اوسط ۹۶؍ ہے، یعنی ہر ۲۴؍گھنٹے میں ۹۶؍ خواتین کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس کے باوجود دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملک وشوا گرو کے مقام اور رتبے کی جانب سفرکررہاہے۔ اگلے چند برسوں میں معیشت کے اعتبار سے عالمی سطح پر دوسری کچھ معیشتی قوتوں کے ہم پلہ آجائے گا لیکن عور ت ذات کی چادر اور چار دیواری کا تقدس، حرمت، عزت وقار کا تحفظ یقینی بنانے کی سمت میںسخت قوانین تو وضع کئے جاتے رہے ہیں لیکن عمل درآمد اُس درجہ کا نہیں۔ خود ساختہ بھگوان رام رحیم جو عصمت دری اورقتلوں میںملوث ہے کو گذشتہ دو سالوں کے دوران تین بار پیرول پر رہائی دی گئی، اسی طرح ایک اور خود ساختہ بھگوان اوشو کو بھی رہائی سے نوازا گیا، یہ کچھ ایسے انڈیکٹر ہیں جو خود طرزعمل اور اپنی کہانی اور مجرموں کے تئیں سلوک بیان کررہاہے۔