کیاکشمیر واپس ۱۹۸۷ء کی طرف لوٹ رہا ہے جس کی بُنیاد ۱۹۷۲ء میں رکھی گئی تھی؟ اس سوال کا جواب فی الوقت قدرے مشکل ہے کیونکہ سوال کی بُنیاد یا تو کسی مفروضہ پر مبنی ہے یا محض چند قیاسات پر ۔ البتہ سیاسی اُفق پر کچھ ایسے بادل منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں جو اس مخصوص مفروضے یا قیاس کو جنم دینے کا محرک بن رہا ہے۔ جبکہ کشمیرنشین چند ایک سیاسی حلقے بار بار یہ انتباہ دے رہے ہیں کہ ۱۹۸۷ء کو دہرایا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ چند حلقے ایساکیوں کہہ رہے ہیں، انہیں کون سی مجبوری ہے ایسا سنگین نوعیت کاانتباہ دینے کی؟ کیا وہ کسی چھپی تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں یا یونہی اپنا سیاسی اور نظریاتی دبدبہ قائم کرنے کیلئے ہوا میں تیر چلا کر ردعمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی منظرنامے کے ہوتے پارلیمانی الیکشن مختلف مراحل سے ہوکر گذررہا ہے جبکہ جماعت اسلامی اچانک متحرک ہوگئی اور اس کا ایک لیڈر اس دعویٰ کے ساتھ سامنے آیا کہ ان کی جماعت جمہوریت میں یقین رکھتی ہے اور اگر پابندی ہٹائی گئی تو جماعت اسلامی الیکشن میںحصہ لے سکتی ہے یا لینے کا فیصلہ بھی کرچکی ہے۔
جماعت اسلامی کوممنوعہ قراردیا چکا ہے،ا س الزام یا دعویٰ کے تحت کہ یہ جماعت دہشت گردانہ اور دہشت گردی سرگرمیوں میں ملوث ہے، معاونت کررہی ہے ، فنڈز جمع کرکے دہشت گردوں میں بطور سہولت کار کے تقسیم کررہی ہے، پتھرائو میںملوث ہے، اس طرح یہ ملک دُشمن اورامن دُشمنانہ سرگرمیوں میںملوث بھی ہے اور بڑھاوا بھی دیتی رہی ہے۔ ابھی یہ پابندی جاری ہی تھی کہ حال ہی میں پابندی کی مدت میں مزید پانچ سال کی توسیع کردی گئی ہے۔
الیکشن کے دوران اور اس کے انعقاد سے ذرا قبل سید الطاف بخاری کی جماعت اپنی پارٹی نے اعلان کیا کہ ان کی پارٹی کے دروازے جماعت اسلامی اور دیگر علیحدگی پسند نظریات کے حامل افراد کیلئے کھلے ہیں جبکہ حریت کانفرنس سے وابستہ ایک لیڈر کو پھول مالا ئیں پہنا کر اور فوٹو سیشن منعقد کرکے اپنی جماعت میں فخر کے ساتھ شامل بھی کرلیا ۔ بہرحال جماعت اسلامی کے اس اعلان کہ وہ الیکشن پراسیس کا حصہ بننے کیلئے تیار ہے کا پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کی طرف سے خیر مقدم کیاجارہاہے جبکہ نیشنل کانفرنس نے تو یہ تک کہہ دیا کہ بجائے اس کے جماعت دوسروں کے اُمیدواروں کیلئے کام کرے بہتر ہے وہ اپنے اُمیدوار میدان میں اُتارے۔
اب جبکہ یہ نیا منظر اُبھر رہا ہے جو سوال اوپر کیاگیا تاریخ کے مخصوص پس منظر اور جماعت اسلامی کی طرف سے گزرے ۳۵؍ برسوں کے دوران اداکردار اور رول کا بھی محض سرسری ہی سہی احاطہ اور دیانتدارانہ تجزیہ ناگزیر بن جاتا ہے۔
جماعت اسلامی کی قیادت سے منسوب یہ بیان اطلاع کی صورت میں سامنے آیا ہے کہ ’’ہم (جماعت اسلامی) ہمیشہ جمہوری پراسیس کا حصہ رہے ہیں۔ البتہ درمیان میںخون خرابہ ہوا، چونکہ ہمارے پاس کوئی دفاعی نظام نہیں تھا لہٰذا ہم نے پیچھے قدم ہٹالئے لیکن اب امن اور ترقی چاہتے ہیں نہ کہ نوجوانوں کی مزید ہلاکتیں۔جماعت اسلامی اس دعویٰ کے ساتھ بھی میدان میں آرہی ہے کہ اس نے ملی ٹنسی کی کبھی حمایت کی ہے یعنی دوسرے الفاظ میں جماعت نے ملی ٹنسی میںملوث ہونے کی تردید کی۔ جماعت کی مرکزی مشاورتی کونسل نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے بشرطیکہ ان پر عائد پابندی ہٹائی جائے اور اس حوالہ سے ہم نے دہلی کو بتایا ہے کہ جماعت زیر زمین ملی ٹنسی میںیقین نہیں رکھتی‘‘۔
میڈیا کے کچھ حصوں میں جماعت اسلامی سے منسوب محولا بالا بیان منظرعام پر آیا ہے جس میںخاص طور سے ملی ٹنسی میںملوث ہونے کی تردید کی گئی ہے کیا وہ تاریخی حالات واقعات کے تناظرمیں دیانتداری سے عبارت ہے۔ جواب نفی میں ہے۔ ریکارڈ پر تمام حقائق موجود ہیں۔ ابتدائی دورمیں جماعت اسلامی نے کشمیرمیں بھڑکی عسکریت کو فساد قراردیا لیکن جب دیکھا اور محسوس کیا کہ لبریشن فرنٹ نامی عسکری تنظیم نظریاتی اور سند قبولیت کے حوالہ سے بال و پر پھیلا رہی ہے تو اس نے بھی اپنی عسکری ونگ حزب المجاہدین کے نا م سے میدان میں اُتاری، سید صلاح الدین ، احسن ڈار، مجید ڈار اور وہ بہت سارے جو جماعت اسلامی سے وابستہ تھے ایک ایک کرکے عسکری عہدیدار بنتے گئے۔ اس حقیقت کو جھٹلا کر اورتردید کا سہارالے کراب جماعت اسلامی کیا ثابت کرنا چاہتی ہے اور کس کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
کیا جماعت اسلامی کے سب سے قد آور لیڈر مرحوم سید علی گیلانی بیک وقت سیاست اور عسکری محاذ کے حوالہ سے کردارادانہیںکرتے رہے۔ البتہ اس بات سے اتفاق کی گنجائش ہے کہ جماعت اسلامی کے کئی سینئر لیڈر وہ بھی گزرے جنہوںنے ابتداء سے ہی عسکریت سے دوری رکھنے کی وکالت کی لیکن جماعت کے اندر سخت گیر ڈھرہ اعتدال پسند لیڈر شپ کو ایک ایک کرکے حاشیہ پر لگاتارہا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ جماعت نے ہر علاقہ میں اپنے نظم سے وابستہ کونسلیں قائم کرکے فتویٰ صاد ر کرکے سزا وجزا کے اختیارات تک خود میں تفویض کئے؟پھر یہ سوال بھی توواجبی بنتا ہے کہ حالیہ ایام میںحکومتی سطح پر جن املاک اور اثاثوں کو بحق سرکار ضبط کیاجاتا رہا کیا اُن کا تعلق جماعت اسلامی سمیت دیگران سے نہیں، اگر جماعت اپنے تازہ دعویٰ کی روشنی میں ملی ٹنسی میںملوث نہیںرہی ہے تو حکومت کو پھر کس سفید یا کالے کتے نے کاٹ رکھا ہے کہ اس کی ایجنسیاں اثاثے اور جائیدادیں ضبط کرتی جارہی ہیں ؟
الیکشن عمل کا حصہ بننا ہر شہری کا جمہوری اورآئینی حق ہے۔ لیکن کچھ آئین تقاضے ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہیں۔ کیا جماعت نے اُن آئینی لوازمات کا کبھی احترام اور تسلیم کیا ہے؟ جماعت کے اس دعویٰ کہ دہلی کے ساتھ بات ہورہی ہے دہلی کی جانب سے اس بارے میں تصدیق یا تردید نہیں ہوئی،البتہ یہ محسوس کیا جارہاہے کہ ۱۹۷۲ء میں کانگریس کی مرکزی قیادت نے اس جماعت کو سیاست اور الیکشن پراسیس کا حصہ بناکر جس سیاسی عدم استحکام اور فساد وتخریب سے کشمیرکو ہم کنارکیا اُس کو دوبارہ زندگی عطاکرنا کس کے وسیع تر مفادات میں ہے اور باالخصوص کشمیرنشین وہ کون سے سیاسی کردار ہیں جو ۱۹۷۲ء کے بعد سے کا کشمیر دیکھنے کیلئے مرے جارہے ہیں؟ یہ سوال اہم ہے، خود جماعت اسلامی اپنا احیاء نئے حالات میںکیوں چاہتی ہے اور کیا اپنی دی گئی خواہش کی تکمیل کیلئے اس نے اپنے جماعتی آئینی میںکشمیر کی حیثیت کے حوالہ سے ترمیم کی ہے؟