جموںوکشمیر سے افسپا کو ہٹائے جانے پر غور کرنے اور سڑکوں پر تعینات آرمی کو واپس بیرکوں میں بھیجنے سے متعلق مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کے ایک حالیہ بیان کو لے کر کشمیر نشین سیاسی جماعتوں کے درمیان لفاظیت اور طعنہ بازی کی روایتی جنگ چھڑ گئی ہے۔
نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی ، پیپلز کانفرنس اور کچھ دوسرے وزیرداخلہ کے بیان پر اپنے اپنے انداز اور پالیسی کے مطابق ردعمل دے رہے ہیں ، اگر چہ بحیثیت مجموعی بیان کا خیر مقدم کیا جارہاہے لیکن ساتھ ہی کچھ شکوک، کچھ شبہات اور کچھ خدشات کا بھی یہ کہکر اظہار کیاجارہاہے کہ وزیرداخلہ کا یہ بیان چناوی مصلحت ہے اور چناوی مراحل تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد اس کا تذکرہ غائب ہوتا جائے گا۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ نے وزیر داخلہ کے بیان پر مختلف انداز اور لہجہ میں ردعمل دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ وزیراعلیٰ تھے تو افسپا کو ہٹائے جانے کافیصلہ ہوا لیکن اُس وقت کے آرمی سربراہ جنرل وی کے سنگھ جو بعد میں بی جے پی میں شامل ہوکر وزراتی عہدے پر فائز ہوئے نے مخالفت کی اور مرکز میں قائم کانگریس کی قیادت میں یو پی سرکار کو ایسا کرنے سے روک لیا۔
جنرل (ر) وی کے سنگھ کا نام غالباً پہلی بار سامنے آیا ہے ۔ البتہ ریکارڈ پر افسپا کے ہٹائے جانے اور مخالفت کے حوالہ سے یہ حوالے موجود ہیں کہ اُس وقت کے مرکزی وزیرداخلہ پی چدمبرم محدود طور سے افسپا ہٹائے جانے کے حق میں تھے لیکن ان کے کابینہ ساتھی وزیردفاع اے کے انٹونی مخالفت کرکے راہ میں حائل ہوتے رہے۔ بہرحال افسپا کے اطلاق کے نتیجہ میں جو کچھ تباہی وبربادی کشمیرکی ہونی تھی وہ ہوچکی ہے،اس کے برقرار رہنے یا نہ رہنے سے اب زیادہ فرق محسوس نہیں کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ تباہی وبربادی یاآئین وقانون کے تحت طاقت اور اختیارات کی ایک حد اور ریڈ لائن ہواکرتی ہے۔افسپا کی موجودگی میں اس طاقت ، اس اختیار اور اس ریڈلائن کو بڑی بے رحمی اور بے دردی سے پائوں تلے ایک بار نہیں بلکہ لاتعداد مرتبہ روند ڈالا گیا ہے۔ البتہ عمر عبداللہ کا ردعمل کہ افسپا ہٹائے جانے سے پہلے قومی شاہراہ پر سویلین ٹریفک کی نقل وحرکت کو معمو ل کے مطابق بنانے کیلئے آرمی کا نوائے کے نام پر جو زیادتیاں اور انسانی حقوق کی خلا ف ورزیاں کی جارہی ہیں ان کا ازالہ پہلے کیاجائے غور طلب ضرور ہے۔
پیپلز کانفرنس کے لیڈر سجا د غنی لون اور پی ڈی پی کی سرپرست محبوبہ مفتی نے بھی وزیرداخلہ کے بیان کا بحیثیت مجموعی البتہ کچھ اشاروں کے ساتھ خیرمقدم کیاہے۔ لیکن پیپلز کانفرنس کے لیڈر سجاد غنی لون نے اپنے ردعمل میں افسپا کے نفاذ اور عملدرآمد کیلئے عمرعبداللہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ نیشنل کانفرنس کے اقتدار کے دوران افسپا کو نافذ کردیاگیا۔ سجا د غنی لون کا یہ بیان قدرے درست ہے لیکن طنز کرنے سے پہلے انہیں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے تھا کہ افسپا جموں وکشمیر کا بنایا قانون نہیں بلکہ ایک مرکزی قانو ن ہے جس کا نفاذ مرکز کے حد اختیار میں ہے۔
معلوم نہیں کہ سیاستدان اپنی سیاسی خباثت کیلئے تاریخ اور واقعات کو کیوں خلط ملط کرنے کے خوگر ہوتے ہیں۔ مرکزی سرکار نے ستمبر ۱۹۹۰ء میں افپسا کو پورے جموں وکشمیر میںایک نوٹفیکشن کے ذریعے نافذ کردیا۔ جن حالات میں افسپا کو نافذ کردیاگیا تھا ا س کے بارے میں شاید ہی کوئی شخص ہوگا جو دعویٰ کرسکے کہ اس کے نفاذ کی بُنیادی وجوہات کا اسے علم نہیں، خود سجاد غنی لون بھی نہیں۔ افسپا کا نفاذ ریاست کے شورش زدہ ہونے کے ردعمل میں کیاگیا۔ ۹۰ء میں نیشنل کانفرنس اقتدارمیں نہیں تھی، گورنر راج نافذ تھا، کشمیرکے چپے چپے پر عسکریٹ کا راج عروج پر تھا، سرزمین کشمیر لہورنگ ہورہی تھی، سجاد غنی لون کی ملکیت پیپلز کانفرنس بھی اپنی عسکری قوت کے ساتھ میدان میں تھی، یہ بات بغیر کسی تردد یا تردید کے کہی جاسکتی ہے کہ اگر عسکری محاذ کشمیر میں برسرشر اور فساد سرگرم عمل نہ ہوتا تو افسپا کے نفاذ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس اعتبار سے دیکھاجائے اور قریب سے تجزیہ کیاجائے تو کشمیر پر افسپا کے نفاذ کے لئے جولوگ اور عنصر نمایاں طور سے ذمہ دار رہے ہیں ان میں سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس کی سرپرستی میں اُن کی عسکری بازو بھی شامل ہے۔ لیکن آج چہرے پر کوئی دوسرا خو ل چڑھا کر کچھ ایسے دعویٰ کئے جارہے ہیں جن کا زمینی اور تاریخی حقائق سے کوئی مطابقت نہیں۔
بہرحال قطع نظر سیاسی جماعتوں کے ردعمل کے مرکزی وزیرداخلہ نے افسپا کے ہٹائے جانے پر ’غور‘ کرنے کی بات کی ہے۔ یہ غور کب ہوگا، اس کا انحصار جموں وکشمیر میں سکیورٹی صورتحال، امن اور عوامی اشتراک عمل پر منحصر ہے ۔ اگر چہ بار بار کہا جارہاہے کہ کشمیرمیں امن قائم ہوچکا ہے، سکیورٹی صورتحال میں بہتری آئی ہے، کسی قسم کی تخریبی کارروائی اب نہیں ہورہی ہے، دراندازی کا گراف بھی بہت حدتک کم ہوچکا ہے، پتھرائو کے معاملات صفر تک رہ گئے ہیں، یہ سارے انڈیکس افسپا کو ہٹائے جانے کے موافق محسو س کئے جارہے ہیں۔
افسپا کا نفاذ اب تک ایک عملی مجبوری تھی، اب حالات میں بہتری کے ساتھ یہ مجبوری ختم ہو چکی ہے۔ اس مخصوص قانون کے تحت آرمڈ فورسز کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ ان لامحدود اختیارات کے نتیجہ میں اوسط شہری کے کم وبیش تمام تر بُنیادی حقوق باقی نہیں رہتے، اس طرح بحیثیت مجموعی افسپا جمہوریت اور جمہوری عمل آوری کی راہ میں بھی مزاحم ہیں جو آئین میں درج مختلف نوعیت کی شقوں جن کا تعلق شہری آزادی، حقوق ، اظہار رائے ، قانون کی عمل آوری ، انصاف کے حصول کے تعلق سے عدالتوں سے رجو ع ایسے معاملات سے ہے جو ضمانتوں کا درجہ رکھتی ہیں۔
اب جبکہ خود مرکز اس حوالہ سے ہٹائے جانے کی ضرورت کو محسوس کررہا ہے وسیع تر عوامی اور یکجہتی کے مفاد میں یہی ہے کہ اس سمت میں سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے اس قانون کے ہٹانے کی سمت میں پہل کی جائے۔