انڈیا اگینسٹ کورپشن تحریک کے ہیرو اروند کیجریوال شراب سکینڈل میں مبینہ ملوث ہونے کے الزام میں بالآخر گرفتار ہوگئے۔یہ ملک کے پہلے وزیراعلیٰ ہیں جنہیں حراست میں لیاگیا ہے اور عام آدمی پارٹی کے ایک ترجمان کے مطابق ان کے اہل کنبہ کو گھرمیں نظربند رکھاگیا ہے۔
کانگریس کے ایک سابق سینئر لیڈر مرحوم پرنب مکھرجی جو بعدمیں صدر ہند کے عہدے پر فائز رہے کی صاحبزادی نے اروند کیجریوال کی گرفتاری کو ’’کرما‘‘ قراردیا ہے۔ کرما کے لفظی معنی مکافات عمل ہی ہوسکتا ہے۔ گرفتاری پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مسِ شرستھا مکھرجی کا کہنا ہے کہ انا ہزارے اینڈ کمپنی کی قیادت میں بشمول کیجریوال کے انہوںنے اس وقت کی دہلی کی وزیراعلیٰ شیلا ڈکشٹ اور کانگریس کے دوسرے کئی لیڈروں پر یہ بہتان تراشا کہ ان کے پاس کورپشن کے حوالہ سے شہادتوں کے صندوق بھر ے پڑے ہیں لیکن سالہاسال گذرنے کے باوجود ابھی تک ان میں سے کسی ایک بھی صندوق کو سامنے نہیں لایا۔اروند کیجریوال کے ایک دیرینہ ساتھی صحافی اشوتوش جو اس دورمیں کورپشن مخالف تحریک کابھی حصہ رہے ہیں کا ایک اعترافی بیان ریکارڈ پر آج بھی دستیاب ہے کہ جن لیڈروں کے خلاف کورپشن کے سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے گئے اور جنہیں عوام میں بدنام کیاجاتا رہا کے سامنے اروند کیجریوال اینڈ کمپنی معافیاں مانگتی رہی جبکہ خود اناہزاری سے منسوب یہ بیا ن بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ کیجریوال شہرت ،اقتدار اور پیسہ کا رسیا ہے ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جس وقت کورپشن کے خلاف تحریک کا آغاز کردیاگیا اُس وقت مرکز میں کانگریس سرکار اقتدارمیں تھی اور وقت کے کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل ونود رائے نے دعویٰ کیا تھا کہ کانگریس سرکار ۲۔جی؍ سکینڈل میں سراپا ملوث ہے اور خزانہ کو ۷۶۔۱؍ لاکھ کروڑ کا نقصان پہنچایاگیا ۔ ونود رائے کے اس چونکا دینے والے سنسنی خیز انکشاف نے پورے ملک کو ہلاکے رکھدیا اور اسی کورپشن عدد کو اشو بناکر انا ہزاری اینڈ کمپنی جس میںکیجریوال ، پرشانت بھوشن، خاتون پولیس آفیسر کرن بیدی جسے بعدمیں لیفٹیننٹ گورنر کا عہد ہ تحفہ میں دیاگیا، پتن جلی کے رام دیو وغیرہ شامل تھے نے نہ صرف ایک طوفان برپا کر دیا بلکہ یہی کورپشن مخالف تحریک مرکز میں کانگریس کی حکومتی بے دخلی کا بھی محرک بنی۔
اس حوالہ سے کئی ایک پہلو ریکارڈ پر ہیں۔جن وزراء اورلوگوں کو ملوث قراردیا جاتارہا اور جن کی کردار کشی عوامی سطح پر کی جاتی رہی وہ عدالتوں سے نہ صرف ایک ایک کرکے باعزت بری ہوتے گئے بلکہ بعد میں تحریک سے وابستہ کئی لیڈروں کو گڑ گڑا کر ہاتھ جوڑ کر معافیاں بھی مانگتے دیکھا گیا۔ عدالت نے اپنے حتمی فیصلہ میں ونود رائے کے ۷۶۔۱؍ کروڑ کے نقصان کے دعویٰ کو جھوٹ کا پلندہ قراردیا جبکہ بعدمیں حکومت کی تبدیلی ہوئی اور ۲۔۳؍جی کے حوالہ سے ٹینڈر طلب کئے تو مشکل سے چندہز ار کروڑ میں ہی الاٹمنٹ کی گئی ،ا س طرح بعدمیںخود حکومتی سطح پر حکومت نے اعتراف کیا کہ سابق کمپٹرولر جنرل کے دعویٰ اختراعی تھے بلکہ ان کے پیچھے مکروہ سیاسی عزائم بھی کارفرما تھے۔
بعد کے برسوں میں انڈیا اگینسٹ کورپشن نامی تحریک کے حوالہ سے جو تحقیقاتی اور تجزیاتی رپورٹیں سامنے آتی رہی وہ ہوشربا ہیں جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس ساری تحریک کے پیچھے تاریں کہیں اور سے ہلائی جاتی تھی ، یہی وجہ ہے کہ انا ہزارے ان سامنے آنے والے تجزیوںاور تحقیقاتی رپورٹوں کے بعد گوشہ نشینی میں چلے گئے جبکہ وہ چند لوگ جنہیں معلوم نہیں تھا کہ تحریک کی اصل بھاگ دوڑ کن کے ہاتھ میںہے کو جب پتہ چلا تو وہ ایک ایک کرکے علیحدہ ہوتے گئے۔
بہرحال دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری پر اپوزیشن کی جانب سے زبردست مخالفانہ ردعمل سامنے آرہا ہے جبکہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیااور پارٹی سے وابستہ کچھ وزراء سمیت کئی افراد کو حراست میں لیاگیا۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت اپنے مخالفین کو اپنی ایجنسیوں کی وساطت سے کچل رہی ہے ، چھاپے مار ے جارہے ہیں اور جو لوگ چھاپوں، گرفتاریوں اور دوسرے ہتھکنڈوں سے خود کو محفوظ رکھنااور دیکھنا چاہتے ہیں وہ حکمران جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں جو بقول اپوزیشن کے وہ آنا فاناً حکومت کی کلینگ میشن میں دھل کر دودھیا شکل وصورت میں باہر آجاتے ہیں۔اس مخصوص طریقہ کا ر کو غیر آئینی، غیر اخلاقی اور جمہوریت کے قتل کے مترادف بھی قراردیاجارہاہے ۔
قطع نظراس کے کہ اصل میں پردے کے پیچھے کہانی کیا ہے اس نوعیت کے مخصوص سیاسی منظرنامے کے اپنے محرکات ہیں، نتائج ہیں اور آنے والے معاملات چاہئے انتظامی ہوں یا الیکٹورل کے تعلق سے اپنے منفی اور مثبت اثرات بھی ہیں۔ البتہ عوامی سطح پر اس بات کو محسوس کیاجارہاہے کہ اس نوعیت کے اقدامات سے توجہ دوسرے نازک اور حساس اشوز سے ہٹ جاتی ہے اور لوگوں کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی نئے نئے پیش آمدہ معاملات کے حوالہ سے بحث ومباحثہ میں اُلجھ جاتی ہے ۔ اس طرح وہ دوسرے نازک اور حساس نوعیت کے معاملات پس پردہ چلے جاتے ہیں جن کا فائدہ وہی لوگ یا پارٹیاں اُٹھاتی ہیں جو ان سے وابستہ یا ملوث ہوتی ہیں۔
اس نوعیت کی سیاست ملک کی ۱۹۴۷ء میں آزادی کے پہلے ہی دن شروع ہوئی تھی اور اس سیاست کی داغ بیل ملک کی اولین سیاسی اور حکومتی قیادت نے رکھی، جو بعد کے آنے والے برسوں میں وقت کی ضرورت کے مطابق پروان چڑھتی رہی اور ضروریات کے مطابق ہی اپنے آکار بھی بدلتی رہی۔ اس طرز کی سیاست کا خاتمہ ممکن نہیں، یہ ہردور کی بات رہی ہے اور آنے والے ادوار اس حوالہ سے کچھ بھی مختلف نہیں ہوں گے البتہ شکل وصورت میں نظریہ ضرورت کے تحت تبدیلیاں لائی جاتی رہینگی۔