ایک دلچسپ مگر حیران کن سیاسی منظرنامہ بڑی تیزی کے ساتھ کشمیر میں اُبھررہا ہے۔نئی اور روایتی پارٹیوں کے درمیان لفاظی جنگ چھڑ گئی ہے جس جنگ کا تعلق عوام اور عوام کو درپیش معاملات اور مسائل یا ان کے حقوق کی بازیابی اور مفادات کے تحفظ سے نہیں بلکہ حصول اقتدار سے براہ راست ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اقتدار کی لیلیٰ کس کے گلے کا ہار بننا پسند کرئیگی اور کس کو دھتکار دے گی ہر پارٹی اپنے اپنے مخصوص اہداف، مفادات اور نظریے کے تعلق سے آئے روز کسی نہ کسی نئے نریٹو کے ساتھ سامنے آرہی ہے اور اپنے سیاسی حریفوں کو نئے نئے انداز کے ساتھ نشانہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔
گپکار الائنس کو لے کر اس کی اکائیوں کو یہ کہکر نشانہ بنایاجارہاہے کہ اس میںشامل پارٹیوں نے لوگوں کو گمراہ کیا۔ گپکار الائنس ہی کے تعلق سے ایک اور سیاسی پارٹی نے سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ پر نشانہ کسا۔ کہاجارہاہے کہ گپکار الائنس کو گمراہ کن جھوٹ سے عبارت وجود بخشا گیا تھا۔ ایک نئی سیاسی پارٹی اب اس نعرے یا نریٹو کیساتھ میدان میںقدم جما نے کی کوشش کرتی دکھائی دے رہی ہے کہ اب نہ کوئی اندرونی خودمختاری کی بات کررہا ہے اور نہ کوئی سیلف رول کا نعرہ بلند کررہا ہے۔ جبکہ پارلیمنٹ میں جب دفعہ ۳۷۰؍ کی منسوخی کا اعلان کیا جارہا تھا تو اُس مخصوص نظریے کی حامل پارٹی کے نمائندگان خاموشی کے ساتھ سنتے رہے۔
اس نوعیت کے نریٹو کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کا عوام کے سامنے جلوہ گر ہونا واقعی دلچسپ ہے البتہ حیران کن بات یہ ہے کہ چاہئے پارٹی روایتی ہے یا نئی کوئی ایک بھی اُن اشوز کو ایڈریس نہیں کررہی ہے جواشوز عوام کے نزدیک ہیں، جن اشوز کو لوگ اپنی خواہشات اور ضروریات کے حوالہ سے بڑی اہمیت دے رہے ہیں یا سماج کے حساس اور ذمہ دار طبقے ان اشوز کو کشمیراور کشمیری عوام کی صحت سلامتی، بقاء ،درپیش مسائل اور معاملات کے حوالہ سے اہمیت اور ترجیحی توجہ کے حامل سمجھتے ہیں، لوگ حیران ہیں کہ ساری پارٹیوں اور ان سے وابستہ لیڈروں کو اچانک یہ کیا ہوا کہ وہ عوامی اہمیت اور توجہ کے معاملات کو اب زبان نہیں دے رہے ہیں، چھوٹے بڑے جلسے تو آئے روز منعقد کئے جارہے ہیں، پارٹیوں سے وابستہ افراد کو اپنی طرف مائل کرنے اور پارٹی کا حصہ بنانے کیلئے انہیں مالائیں پہناکر فوٹو سیشن تو روز منعقد کئے جارہے ہیں ، جلسیوں میں موجود اپنے مخصوص افراد کی خدمات حاصل کرکے اپنے حق میں نعرہ بازی بھی کرارہے ہیں، اپنی اپنی سابق پارٹیوں کو نشانہ بناکر ان پر الزامات بھی عائد کرکے خود کو دودھ کے دھلے بھی جتلا رہے ہیں لیکن لوگوں کی بات نہیں کی جارہی ہے۔
اب کچھ پارٹیوں سے وابستہ بعض لیڈران نے مذہب کا بھی استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ فاروق عبداللہ کو طعنہ دیاجارہاہے کہ ’’تَمِس چُھ رام رائومُت‘‘۔ یہ بھی دعویٰ کیاجارہا ہے پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد وہ اشوز کو اُٹھائیںگے اور اُس تکلیف اور درد کو ایوان میں پیش کریں گے جو لوگ سہہ رہے ہیں ۔ کیونکہ جو لوگ گذشتہ پچاس سال سے کشمیرکے نام پر پارلیمنٹ میں نمائندگی کرتے رہے ہیں وہ کارکردگی کے حوالہ سے صریح ناکام ہوچکے ہیں۔
عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی تگ ودو میںیہ ایک بڑا تضاد بھی اب کھل کر سامنے آرہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا سربراہ مسلسل دعویٰ کررہا ہے کہ اُس نے مرکز کے ساتھ بات کرکے سرکاری ملازمتوں میںداخلہ کیلئے سو فیصد مقامی بھرتی کو یقینی بنایا جبکہ اراضی کی ملکیت کے حوالہ سے ۹۵؍ فیصد کا تحفظ بھی حاصل کیا لیکن انہی دو مخصوص اشوز کے تعلق سے ایک اور نئی پارٹی کا سربراہ مسلسل اپنے جلسوں اور بیانات میںعوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ اقتدار میںآنے کی صورت میں وہ ان دونوں معاملات پر سو فیصد حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کا راستہ اختیار کرے گا۔ اس پارٹی کے سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ علاقائی پارٹیوں نے سالہاسال سے عوام کا استحصال کیا اور اب اگر ’’مجھے عوام کا منڈیٹ ملا تو ترقی کے ایک نئے عہد کا آغاز کیاجائے گا‘‘۔
لوگوں کا منڈیٹ حاصل کرنے کیلئے کس سیاستدان یا کس پارٹی نے آج تک بلند وبانگ دعویٰ نہیں کئے، لوگوں کو سبز باغ نہیں دکھائے، ان کے جذبات اور احساسات کے ساتھ کھلواڑنہیں کیا، لیکن منڈیٹ حاصل ہونے کے بعد کیا کسی نے عوام سے کئے اپنے وعدے نبھائے، اس کے برعکس ہردورمیں یہی دیکھا گیا کہ اقتدار ملتے ہی عوام کے حقوق اور مفادات کو پیروں تلے روندھنے کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتارہا، اپنے مفادات کیلئے کسی بھی حد تک خود کو گراتے رہے، اور عوام کے جذبات کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ ایک نئے عنوان کے ساتھ کیا جاتارہا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سب کچھ لوگ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، اپنے ساتھ اس دھوکہ دیہی اور فریبی سیاست کے چہروں کی ہر ایک لکیر پڑھتے بھی رہتے ہیں لیکن جب بیلٹ پر ٹھپہ لگانے کا وقت آتا ہے تو اُس وقت سب کچھ یہ کہکر فراموش کیاجاتا ہے کہ چلو ایک اور بار دیکھیں کہ کیا کرے گا۔یہی اندھے ٹھپے کشمیرکی تباہی کے کئی راستے بھی ماضی اور ماضی قریب میں کھولنے میں بُنیاد بنتے رہے ۔
سیاسی طورپر پختہ شعور اور معاملات کے تعلق سے گہرے تجزیہ کی ضرورت ہے لیکن کشمیر کا یہ طرہ ٔامتیاز رہا ہے کہ کشمیر تقریباً ہر معاملے میں لمحاتی فیصلے لیتا رہا جبکہ سارے مفکر، دانشورا ورصاحب عقل وشعور اس با ت پر متفق ہیں اور مانتے بھی ہیں کہ جذباتی یا لمحاتی فیصلے ہی صدیوں کی سزائوں پر منتج ہوتے رہے ہیں۔ کشمیر کی تاریخ ایسے ہی بہت سارے جذباتی اور لمحاتی فیصلوں سے عبارت ہے اور بھگت بھی رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔