رسومات بد، بے جااصراف، نام ونمود، دکھائوا اور نظریہ دبدبہ کی بار بار نشاندہی اور ان کے بحیثیت مجموعی معاشرے پر پڑنے اور مرتب ہورہے منفی اور تباہ کن اثرات اور پھر ان اثرات کے مضمرات اور برآمد نتائج کو کسی خاطرمیں نہ لانے والے معاشروں کا حسرت ناک انجام مقدر بن جاتا ہے ۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ایک تاریخی سچ ہے۔
سرمایہ کا حصول اور معاشرے میں معزز رتبہ کا حصول نہ گناہ ہے اور نہ کوئی جرم البتہ اس سرمایہ کا حصول اور معززیت کو نام ونمود اور نظریہ دبدبہ کی نیت اور غرض سے استعمال کرنا قرانی احکامات اور فرمودات کی روشی میں بے جا اصراف قرار دیا اور تصورکیاجارہاہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیرمیں شادی بیاہ اور دوسری چند سماجی تقریبات کے دوران جس نمائش کا مظاہرہ کیا جاتارہا اور جو نمائش اب تمام تر اخلاقی قدروں اور روحانی حدود کو پامال کرتی جارہی ہے معاشرتی سطح پر وہ اگر چہ لوگوں کی اکثریت کیلئے فکر مندی اور تشویش کا موجب بن چکی ہے البتہ اس کے منفی اثرات نتائج کے حوالہ سے اب دوسروں کیلئے تباہ کن بن رہے ہیں بلکہ وبال جان کی صورت بھی اختیار کرتے جارہے ہیں۔
سرمایہ دار جنہیں عمومی لہجے میں اشرافیہ کہا جاتا ہے اپنے سرمایہ کو جس طرح، جس انداز اور جس کسی طریقہ سے خرچ کرے وہ ان کی صوابدید ہے، کسی کو اس پر معترض ہونے کی ضرورت نہیں البتہ کچھ سماجی قدریں ہیں، اخلاقیات کے کچھ حدود ہیں اور سب سے بڑھ کر معاشرتی اور معاشرے کے تعلق سے کچھ باتوں اور امورات کا احترام بھی لازم ہے۔ بدقسمتی سے کسی احترام کو نہ ملحوظ خاطر رکھا جارہا ہے اور نہ ہی احترام کرنے کی ضرورت سمجھی جارہی ہے ۔ بس یہ انداز فکر اور اپروچ کہ روپیہ ہمارا ہے،خوشی کی گھڑی ہماری ہے، بچے ہمارے ہیں جو ازدواجی زندگی کے حوالہ سے اپنی زندگیوں کے ایک نئے سفر پر گامزن ہونے جارہے ہیں لہٰذا دوسرے معترض کیوں؟
سوال اور اعتراض واقعی واجبی ہے لیکن معاشرتی اقدار اور اخلاقی حدود کو قتل کرنے یا پامال کرنے کا بھی اس سوچ اور طرزعمل کے حامل لوگوں کے پاس کوئی معقول جواز ہے اور نہ معاشرہ کیلئے اس نوعیت کی بیہودگی اور پاگل پن زیادہ دیر تک قابل قبول اور قابل برداشت ہوسکتا ہے۔
معلوم ہے اور احساس بھی کہ رسومات کو فروغ دینے والے اور بدعات کو نئی نئی شکلیں دینے والوں کی نہ کوئی کمی ہے اور نہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں گے لیکن اس کے باوجود بدعات کو فروغ دینے والوں اور بیہودگیوں کا عریاں مظاہرہ کرنے والوں کی نشاندہی ہوتی رہیگی اور معاشرے کا جو حساس اور ذمہ دار طبقہ ہے وہ سماجی اصلاحات اور سدھار کیلئے اپنی آواز بھی بلند کرتا رہے گا اور جدوجہد بھی، ہمارا بحیثیت مسلمان اور اسلام کے پیروکار کا دعویٰ ہے کہ ہم قرآن کو بھی تسلیم کرتے ہیں، اسوہ حسنہ کے بھی قائل ہیں شریعت کے تقاضوںکی بھی علمیت رکھتے ہیں لیکن جب عمل کا وقت اور مرحلہ آتا ہے تو اُس وقت سب کچھ نظر انداز کرکے اس سب کو حاشیہ پر رکھا جارہا ہے ۔ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ زندگی میں ایک لمحہ یہ آیا ہے تو اب کی بار نہیں تو پھر کب، یہ ایک فرسودہ سوچ ہے جس کی بُنیاد زمانہ قدیم کی سی جہالت پر ہے۔
یہ بھی معلوم ہے کہ کشمیرمیںعرصہ سے یہ سوچ بھی موجود ہے کہ سماجی سدھار اور اصلاحات کی بات کرنے والے ذہنی طور سے پسماندہ اور بچھڑے ہوئے ہیں، وہ زمانہ کی رفتار کے ساتھ خود کو وابستہ نہیں کرسکتے اور اسی وجہ سے شادی بیاہ کی تقریبات کے حوالہ سے نام ونمود، بے جااصراف ، نمائشی ذہنیت اور طرزعمل، جدید ترین آلات اور ساز وسامان کا سہارا لے کر رات رات بھر بالی اور ہالی ووڈ کے گانوں پر ناچتے گاتے اپنے ہمسایوں کا خون بھی خشک کیا جارہاہے اور ان کا چین اور سکون بھی غارت کیاجارہاہے۔ پھر رہی سہی کسر ان مقامی گلوکاروں کی خدمات حاصل کرکے جس منظرنامہ کو جنم دیا جارہا ہے وہ خواہشات کے زمرے میں شمار کی جاسکتی ہے۔
ان تقریبات کے نام پر کیا کچھ نہیں کیا جارہاہے جن کا احاطہ ممکن نہیں۔ البتہ معاشرے کا ہر فرد ان سے بخوبی واقف ہے۔ اکثر لوگ خواہش رکھتے ہیں کہ اصلاح احوال ہو اور اُن سماجی اقدار اور روایات کا احترام باقی رہے لیکن اکثریت کی یہ خواہش کئی وجوہات کے پیش نظر شرمندہ تعبیر نہیں ہو پارہی ہے۔ اس ناکامی کی وجوہات میںیقین محکم عمل پیہم کا گہر افقدان خاص طور سے قابل ذکرہے۔ دوسری ناکامی کی وجہ اخلاقی گراوٹ ہے جس گراوٹ کے بطن سے پھر بتدریج وہ ساری بیہودگیاں اور خرافات جنم پاتے جارہے ہیں جو تقریبات کے دوران واضح طور سے مشاہدہ میں آرہی ہیں۔
معاشرتی اقدار کا تحفظ سب سے مشکل ترین ہے۔ دُنیا میںبہت کم معاشرے ایسے گذرے ہیں جنہیں معاشرتی اور اخلاقی اقدار مقدم اور عزیز رہا ہے یا جن معاشروں سے کہاگیا کہ وہ اس برائی یا اُن دوسری برائیوں کو اپنے سے دور کریں اور انہوںنے آنکھیں بندکرکے لبیک کہی۔ اس تعلق سے مدینہ منورہ کی گلی کو چوں کی یہ شہادت آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب مکینوں سے کہاگیا کہ وہ شراب کو ہاتھ نہ لگائیں تو پلک جھپنے کی دیر تھی کہ گلی اور کوچوں میں شراب گندی نالیوں میںگندے پانیوں کی طرح بہتا دیکھا گیا۔
اس کے برعکس ہمار اکشمیر کا معاشرہ کچھ اور ہی تصویر پیش کررہاہے۔ انکار اور اپنی اختراع کردہ روایتوں پر سختی سے عمل آوری اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے۔ یہ احساس مرچکا ہے کہ جو کچھ غلط کررہاہوں کہیں اُس کا اثر ہمسایہ پر نہ پڑے، بچپن اور لڑکپن کے حوالہ سے ایک واقعہ یاد آرہاہے۔ ایک صاحب ثروت شہری سے پوچھا گیا کہ وہ آئے روز ایک مخصوص آستانہ عالیہ پر حاضری کیوں دے رہاہے جبکہ اُس کے بارے میں یہ چرچے عام ہیں کہ وہ اپنے کاروبار میں ناجائز طریقوں اور ذرائع کو بروئے کار لارہاہے تو جواب دیا کہ ’’میںاپنی آمدن کا چوتھا حصہ اس آستانہ عالیہ کیلئے وقف کرتاہوں۔ یہ جواب یا اس نوعیت کی منطق سماج کے بہت سارے گھرانوں اور خاندانوں کی اساس بن چکی ہے اور بلاکسی شک وشبہ یا کسی ازم کے کہاجاسکتا ہے کہ یہی وہ طبقہ ہے جو کشمیرمیں رسومات بد، اصراف، نام ونمود ، نظریاتی دبدبہ کو معززیت کا تاج اپنے سروں پر رکھ کر بڑھاوا دے رہاہے۔