سرحد کے اُس پارپاکستان گذشتہ تقریباً پانچ سال تک مختلف نوعیت کے سیاسی ، حکومتی ، معاشی اور آئینی بحرانوں اور ان سے پیدا سنگین نوعیت کی اُلجھنوں اور بحرانوں سے جوجھتا رہا، اس مدت کے دوران دو حکومتیں برسراقتدار رہی لیکن بحیثیت مجموعی کوئی حکومت ملک کو ان بحرانوں اور سنگین مضمرات کے حامل چیلنجوں سے باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئی، اب جبکہ ۲۰۱۸ء کے پا رلیمانی انتخابات کی معینہ مدت ختم ہو گئی تو انتظامی معاملات کو چلانے کیلئے نگران وزیراعظم کی قیادت میں نگران حکومت تشکیل دی گئی، اس نگران حکومت کی تشکیل سے ذرا پہلے ہر حلقہ یہ اُمید لگائے تھا کہ معینہ مدت ۹۰؍روز کے اندر اندر نئے انتخابات کرائے جائیں گے لیکن نگراں حکومت کی حلف برداری کے چند ہی گھنٹوں کے بعد اگلے انتخابات کے حوالہ سے یہ خبر گشت کر گئی کہ انتخابات ابھی نہیں، ۹۰روز کے اندر بھی نہیں بلکہ اگلے سال کسی مرحلہ پر غور کیا جائے گا۔
نگران حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی پاکستان کی سیاسی اُفق پر باالخصوص سیاسی جماعتوں اور ان کی لیڈر شپ پر بھی یہ واضح ہوگیا کہ آرمی نے اب مکمل طور سے پاکستان پر کنٹرول سنبھال ہی نہیں لیا ہے بلکہ جو نگران سیٹ اپ وجود میں آیا ہے اُس سیٹ اپ کو وجود بخشنے میںآرمی کا ہاتھ ہے۔ اب اگر چہ نگران سیٹ اپ بادی النظرمیں پاکستان میں فرنٹ لائن پر ہے مگر اس کا ریموٹ کنٹرول راول پنڈی میں ہے۔ اگر چہ عمران خان کے دورحکومت کے دوران آرمی نے پے درپے اعلانات کئے کہ اس کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں اور لوگوں کو بھی مشورہ دیا جاتا رہا کہ آرمی کے کردار کو سیاست زدہ نہیں بنایاجائے لیکن اپوزیشن اتحاد کی حکومت کے اقتدار سے دستبردار ہوتے ہی آرمی اپنے اصلی رنگ روپ اور اپنے روایتی ایجنڈا کے ساتھ سامنے آگئی۔
کچھ حلقے آرمی کے اس کردار سے مطمئن اور خوش ہیں جبکہ کچھ حلقے مخالفت میں اپنا خون خشک کررہے ہیں۔ قطع نظر اس کے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے اور بار بار عیاں ہوتی رہتی ہے کہ پاکستان کے سیاسی ، انتظامی اور حکومتی معاملات سے آرمی کی دخل اندازی اور فیصلہ سازی کی سمت میں آرمی کی خواہشات اور کردار کو بے دخل نہیں کیاجاسکتاہے۔ آرمی کے اس عمل دخل کی اتنی ہی عمر ہے جتنی کہ دُنیا کے نقشے پر قیام پاکستان کی عمر۔ گذری کئی دہائیوں کے دوران کسی بھی مرحلے پر آرمی اپنے اس مداخلتی اور فیصلہ سازی کے کردار سے نہ دور رہی اور نہ ہی کبھی اس نے ہاتھ پیچھے کی طرح کھینچ لئے۔ا ب کی بار اعلانات کے باوجود اگر اس نے پھر سے بڑا ہاتھ مارلیا توا س پر حیرانی نہیں۔
تاہم اندرون پاکستان کچھ سیاسی پنڈت، سیاسی نقاد اور سول سوسائٹی کا ایک اچھا خاصہ حصہ اس بات پر متفق ہے کہ جب بھی نئے انتخابات ہوں گے اور جو بھی نئی حکومت تشکیل پاجائیگی اس کے اہتمام انعقاد اور وجود میںآرمی کا بہت بڑا عمل دخل رہے گااور کسی بھی سیاسی پارٹی کو چاہئے وہ عوامی سطح پر کتنی ہی مضبوط اور بھر پور منڈیٹ حاصل کرے سیاسی ، حکومت، انتظامی اورآئینی معاملات کے ساتھ ساتھ فیصلہ سازی کے حوالہ سے نہ مکمل چھوٹ حاصل ہوگی اور نہ ہی اپنے بل پر گورننس کے اختیارات کے تعلق سے آزاد ہوگی۔
یہ حلقے اس خیال کے ہیں کہ اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا کوئی مرحلہ مستقبل قریب میں آتا بھی ہے تو آرمی سمیت کوئی بھی دوسرا ادارہ اس آزادی کی راہ میں حائل ہوتا رہے گا کیونکہ گذرے ۷۵؍برسوں کے دوران سیاسی پارٹیوں، سیاسی کرداروں اور ان کے حمایتوں نے جس نظام کو وجود بخش کر پروان چڑھایا اور جس نظام کے تحت وہ اپنے اپنے مفادات کا تحفظ اور سب سے بڑھ کر اپنے لٹیرانہ بدعنوان اور کورپٹ طریقہ کار کے حوالہ سے یقینی بناتے رہے ایک طاقتور پارٹی کی حکومت کے ہوتے وہ ممکن نہیں رہے گا۔ اس سارے سیٹ اپ کا سب سے بڑا فائدہ اب تک فوج سے وابستہ جنرل ، کرنل اور بریگیڈر حضرات ہی اُٹھاتے رہے ہیں جس کے بعد دوسرا نمبر جوڈیشری کی اعلیٰ قیادت کا ہے جو اپنی تنخواہیں اور مراعات کے حجم تک مقرر کرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتی چلی آرہی ہے یہاں تک کہ یہ ادارے خود کو کسی بھی آڈٹ کی زد سے مستثنیٰ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان جن بحرانوں سے جھوج رہا ہے ان میں معاشی بحران اور اس بحران کے حوالہ سے غیر ملکی قرضوں کی واپس ادائیگی، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر اور درآمدات، برآمدات کے حوالہ سے معاملات خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ پاکستان کے اس معاشی بحران پر پاکستان کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، بلاگروں کی بڑھتی فوج وغیرہ سینہ کوبی اور ہر دم مرثیہ او رماتم کناں نظرآرہے ہیں اور عموماً حکومت کو براہ راست موردِ الزام ٹھہراتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ سارے حلقے یہ سوال نہ خود سے اور نہ ہی ٹیکس کی ادائیگی کے اہل سرمایہ داروں، بیروکریٹوں ، کاروباریوں اور تاجروں سے کررہے ہیں کہ وہ کیوں ٹیکس ادانہیں کرتے؟ یہ سارے ادارے عموماً بلکہ بات بات پر ہندوستان اور بنگلہ دیش کی معاشی ترقیوں کا حوالہ دے کر اپنی بگڑتی معیشت کے ساتھ موازنہ کرتے رہتے ہیں لیکن یہ جاننے کی زحمت گوارانہیں کرتے کہ ان دونوں ملکوں میں ٹیکس کی ادائیگی کا عوامی اور انتظامی سطح پر ایک موثر نظام اور طریقہ کار موجودہے۔پاکستان کی طرح نہیں کہ تاجروں یا لوگوں کے جرگے کسی سیاستدان یا وزیر کے دفترمیں گھس کر دھمکی دے کر ٹیکس کی ادائیگی کیلئے ان پر دبائو نہ ڈالیں ور نہ ان کی صحت اچھی نہیں رہیگی جس تلخ حقیقت کا اعتراف ابھی چند ہی ہفتے قبل پاکستان کے ایک سرکردہ سیاستدان اور وزیر کرچکے ہیں۔
کئی اعتبار اور حوالوں سے مسلسل یہ دعویٰ سامنے آتا رہا ہے کہ پاکستان اپنے وجود سے اگر چہ نہیں لیکن درمیانی مدت سے کچھ مہم جو، ابن الوقت اور موقعہ پرست سیاسی وغیر سیاسی عنصر کی فیصلہ سازی اور اختیارات میں بڑھتی مداخلت اور ملک کے اثاثوں پر اپنے ناجائز قبضوں اور بڑھتی کورپشن، بدعنوان طریقہ کار اور لٹیرانہ طرزعمل نے اس ملک کو دُنیا کے نقشے پر ایک ناکام ملک بنادیا۔ اُسی دور سے اب تک یہ ملک اور اس کے منتظمین کشکول ہاتھ میں لے کر کبھی چین، کبھی سعودی عربیہ ، کبھی دوسرے خلیجی دوست ممالک اور مالیاتی اداروں کی دہلیز پر دستک دیتے رہتے ہیں اور ملک کو چلانے کیلئے قرضوں پر قرضے حاصل کررہے ہیں۔ لیکن یہ کشکول آخر کب تک ان کا ساتھ نبھا تا رہے گا۔
بہرحال پاکستان نگران حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی ایک نئے سیاسی بحران میں داخل ہوگیاہے۔ یہ نیا سیاسی بحران آنے والے ہفتوں، مہینوں میں کس کروٹ لے گا اُس پر توجہ رہیگی کہ یہ مزید سنگین ہوگا یا نجا ت پائے گا!