یروشلم//
یمنی بحران کے حل کی خاطر کی جانے والی سفارتی کوششوں میں تیزی کے جلو میں قیدیوں کے تبادلے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ جمعہ کے روز شروع ہونے والے تین روزہ آپریشن کی داغ بیل یمنی حکومت اور حوثیوں کے درمیان سوئٹزرلینڈ میں طے پانے والے معاہدے کے ذریعے رکھی گئی تھی۔
قیدیوں سے متعلق مذاکرات میں حکومت کی نمائندگی کرنے والے وفد کے ترجمان اور انسانی حقوق وزارت کے سیکرٹری ماجد فضائل نے ایک ٹوئٹر پیغام میں تصدیق کی ہے ’’کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل جمعہ کے روز سے شروع ہو گا اور تین دن جاری رہے گا۔‘‘
یمنی حکومت کے 70 قیدیوں کو دو الگ الگ پروازوں کے ذریعے عدن پہنچایا جائے گا۔ ہر پرواز 35 قیدیوں کو لے کر جائے گی۔
رہائی پانے والے یمنی حکومت کے قیدیوں میں سابق وزیر دفاع جنرل محمود الصبیحی اور سابق صدر منصور ہادی کے بھائی جنرل ناصر منصور ھادی بھی نمایاں نام ہیں۔
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی عدن سے صنعاء کے لئے قیدیوں کو لے جانے والی پرواز بھی عین اسی وقت روانہ ہو گی جب صنعاء سے عدن کے لئے پرواز اڑان بھرے گی۔
یاد رہے مارچ میں حوثیوں اور یمنی حکومت نے برن میں ہونے والے مذاکرات کے دوران 880 سے زائد قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کو جنگ کے خاتمے کی کوششوں میں تیزی کی نئی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ معاہدے کے تحت حوثی حکومتی فورسز کے زیر حراست 706 قیدیوں کے بدلے 181 قیدیوں کو رہا کردیں گے۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے مطابق اکتوبر 2020 میں ہونے والے قیدیوں کے آخری بڑے تبادلے میں 1050سے زیادہ قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔
جزیرہ نما عرب کا غریب ترین ملک مارچ 2015 سے جنگ کا شکارہے۔اس سے چند ماہ قبل ستمبر2014ء میں حوثیوں نے دارالحکومت صنعاء پرقبضہ کر لیا تھا اور ان کی یمنی حکومت کی وفادار افواج کے ساتھ لڑائی چھڑ گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے مطابق براہ راست اور بالواسطہ اسباب کی بنا پرجنگ کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اورلاکھوں بے گھرہوئے ہیں۔ اس وقت یمن دنیا کے بدترین انسانی بحران کا شکار ہے۔