اوپر سے نیچے تک ہر کوئی الیکشن کی بات کررہا ہے ، کوئی بہت اور کوئی بہت ہی جلد الیکشن منعقد ہونے کا مژدہ سنارہا ہے، کوئی الیکشن کے حوالہ سے مسلسل یہ دعویٰ کررہاہے کہ اگلی حکومت’’میری جماعت‘‘ کی ہوگی جبکہ کچھ سیاسی جماعتوں باالخصوص جو ہم خیال ہیں کے درمیان ایک نئی جماعتی صف بندی کرکے ایک مضبوط ’’سیاسی اتحاد ‘‘کی تشکیل کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے پر زور دے رہاہے۔
اسی اثنا میں الیکشن کمیشن نے جموںوکشمیر یوٹی میں فہرست رائے دہندگان کی خصوصی نظرثانی کا حکم نامہ جاری کردیاہے اور حتمی فہرست ۱۰؍مئی ۲۰۲۳ء تک مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے۔ اس حوالہ سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ فہرست رائے دہندگان کی از سر نو ترتیب کا پہلا مرحلہ گذشتہ سال اسمبلیوں کے حد بندی مکمل ہونے کے بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچایاگیا تھا جس کے نتیجہ میں جموں وکشمیر میں تقریباً۱۱؍ لاکھ نئے رائے دہندگان کو فہرست میںشامل کرلیاگیا۔ اب نظرثانی کے بعد مزید کتنے لوگ فہرست میں اپنے ناموں کا اندراج دیکھ پائیں گے اس بارے میں آنے والے دنوں میں پتہ چل جائے گا۔ فی الحال ۸۳؍ لاکھ ۶۰؍ ہزار رائے دہندگان ووٹ کے حقدر قرار دیئے گئے ہیں۔
الیکشن کے حوالہ سے دعویٰ اور جواب دعویٰ سامنے آتے رہیں گے اور ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے ہر ممکن طریقے سے بہلانے پھسلانے اور لبھانے کی کوششیں جاری رہینگی لیکن اہم اشوز جن کا تعلق حال سے بھی ہے اور مستقبل سے بھی کو چھیڑا نہیں جارہاہے۔ معلو م نہیں کیوں سیاسی جماعتیں ایسا نہیں کررہی ہیں، کیا وہ مصلحتوں کی مطیع بن چکی ہیں یا دانستہ طور ان اہم اشوز سے رجوع نہیں کررہی ہیں۔ جبکہ اوسط شہری جو اوسط رائے دہندہ بھی ہے اپنی جگہ حیران وفکر مند نظرآرہاہے اور اپنے آپ سے یہ سوال کررہاہے کہ کیا الیکشن ہی جموںوکشمیرکے موجودہ حال اور مستقبل کے حوالہ سے حرف آخر ہے ،کیاالیکشن کے انعقاد سے وہ سارے مسائل اور معاملات حل ہوں گے جن مسائل اور معاملات سے بحیثیت مجموعی وہ جھوج رہے ہیں، کیا اختیارات الیکشن کے بعد واپس جموں وکشمیر کو منتقل ہوں گے، کیا آئندہ معرض وجود میں آنے والی یا لائی جانے والی حکومت اختیارات کے بغیر عوام کی اُمنگوں ، آرزوئوں ، تمنائوں اور خواہشات کی تکمیل کے حوالہ سے کسوٹی پر اُتر پائیگی؟
یہ سارے سوال الیکشن جب بھی مکمل ہوں گے اور کوئی حکومت کسی ایک پارٹی یا کئی پارٹیوں پر مشتمل مخلوط طرز کی وجود میں آجائیگی تک تشنہ طلب ہی رہیں گے، البتہ آج کی تاریخ میں زمینی سطح پر جو صورتحال نظرآرہی ہے یا جسے محسوس کیاجارہاہے اس حوالہ سے ایسا لگ رہاہے کہ کسی ایک پارٹی کو غالب اکثریت حاصل نہیں ہوگی، کیونکہ کشمیراور جموں دونوں خطوں میں عوام بٹ چکی ہے اور اس کاووٹ بھی مختلف وجوہات اور نظریات کی بنا پر مختلف خانوں سے وابستہ ہوچکا ہے ۔ غالباً اس کا احساس سیاسی پارٹیوں کو ہونے لگا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اب کچھ دنوں سے مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ بڑے لیڈران نئی سیاسی صف بندی کی بات کررہے ہیں اور اس بات پر زور دیا جارہاہے کہ آپس میں متحد ہو کر ہی ’’اپنی حکومت‘‘ تشکیل دی جاسکتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے درمیان یہ نئی صف بندی کس ہیت کی ہوگی یا ہوسکتی ہے۔ جموں بھی سیاسی اور نظریاتی اعتبار سے تقسیم ہوتا نظرآرہاہے اور کشمیر توکب کا تقسیم ہوچکا ہے ۔ اب جس نئی صف بندی یا ہم خیال سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کی بات ہورہی ہے وہ صف بندی کن جماعتوں کے درمیان ہوتی نظرآرہی ہے۔
سابق کانگریس لیڈر اور اب ڈی اے پی کے سربراہ غلام نبی آزاد ، نیشنل کانفرنس کے سرپرست ڈاکٹر فاروق عبداللہ ، پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نئی صف بندی اور سیاسی اتحاد کی بات کررہے ہیں اور اشارہ بھی دے رہے ہیں ۔ ان پارٹیوں کے درمیان نظریاتی اختلافات ہیں لیکن کچھ ایک قدر بھی مشترک ہیں۔ ان کے درمیان نئی سیاسی صف بندی اور الیکشن نتائج کے بعد ایک اتحاد کو جنم دینے کی گنجائش بنتی دکھائی دے رہی ہے ۔ کانگریس بھی ایسے کسی اتحاد میں شریک ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب بی جے پی کا فی الوقت تک کہنا یہی ہے کہ وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی اور یوٹی میں اگلی حکومت نہ صرف ان کی ہوگی بلکہ اگلا وزیراعلیٰ بھی بی جے پی کا ہوگا اور فیصلہ سازی بھی اب کشمیر کے ہاتھ سے نکل کر جموں کے ہاتھ میں آجائیگی۔ لیکن دعویٰ ایک طرف اور اپنی جگہ، یہ ممکن نہیں کہ بی جے پی جموں خطے کی تمام ۴۳؍ اسمبلی حلقوں پر کامیابی کا جھنڈا لہرا پائیگی کیونکہ کٹھوعہ خطے میں اسے اپنے ہی ایک سابق لیڈر چودھری لال سنگھ کی قیادت میں مضبوط چیلنج درپیش ہوگا جبکہ چناب اور پیر پنچال خطوں کی طرف سے چیلنج الگ سے ہیں۔ البتہ بی جے پی کو کشمیر وادی سے کچھ راحت حاصل ہوسکتی ہے اگر چہ بی جے پی کا کہنا ہے کہ اسے وادی کے دس اسمبلی حلقوں سے اپنی کامیابی کی اُمید ہے لیکن اُ س اُمید سے قطع نظر جب اتحاد کی بات کی جاتی ہے توممکنات میں یہ ہے کہ اسے اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس کی جانب سے اشتراک کا ہاتھ مل سکتا ہے جس اشتراک کی طرف ابھی چند ہی روز قبل اپنی پارٹی کے سربراہ سید الطاف بخاری نے یہ کہکر واضح اشارہ کیاہے کہ بی جے پی کوئی کورونا (اچھوت) پارٹی نہیں!البتہ اتحاد میں شرکت یا عدم شرکت کے تعلق سے پیپلز کانفرنس فی الحال خاموش ہے۔
اب الیکشن اصل میںکب ہوں گے یا کب ہوسکتے ہیں اس بارے میں مختلف آرائیں ہیں۔ ۱۰؍مئی تک نئے احکامات کے مطابق فہرست رائے دہندگان کی خصوصی نظرثانی کی تاریخ مقرر کی گئی ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مئی کے آخر تک انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے۔ پھر توقع کی جاسکتی ہے کہ جون …جولائی میں ہوسکتے ہیں ۔ لیکن یہ تاریخیں بادی النظرمیں شری امر ناتھ یاترا اور اس کے انتظامات بشمول سکیورٹی سے متصادم نظرآرہی ہیں تو پھر اگست کے بعد ہی الیکشن کا انعقاد کی توقع کی جاسکتی ہے۔
جہاں تک ریاستی درجہ کی بحالی کا تعلق ہے ، فوری بحالی نظرنہیں آرہی ہے۔ اس کی بحالی میں مزید بہت سارا وقت درکار ہوگا۔ کیونکہ بحالی کے حوالہ سے کئی انتظامی اور اختیاراتی معاملات وابستہ ہیں جنہیں از سر نو تعین کرنے میں وقت درکار ہے۔