من مانا قیمتوں پر گوشت فروخت کرنے کی پاداش میں تین قصابوں کی دکانوں اور مختلف نوعیت کی شکایات کی بنا پر ایک ریستوران کو سر بہ مہر کردیاگیا ہے۔ متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی مقررہ قیمتوں پر اشیاء دستیاب نہ رکھنے اور گراں فروشی کا راستہ اختیار کرنے پر عمل میں لائی گئی ہے۔ گراں فروشوں کو وارننگ دی گئی ہے کہ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائیگی۔
متعلقہ پرائس کنٹرولنگ اتھارٹی کا یہ اقدام عوام کی خواہشات اور توقع کے عین مطابق ہے۔ کشمیرمیں ایک بیماری ایسی ہے جس کا علاج کرنے کی لاکھ کوششوں کے باوجود بیماری جاتی نہیں ہے۔ بلکہ وقت گذرتے اس بیماری میں شدت آتی جارہی ہے۔ اس بیماری کا تعلق گراں فروشی اور عوام کی ضروریات کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان کی جیبوں پر ڈاکہ زنی سے ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سال کے ۳۶۵؍ دن ویسے بھی مسلسل گراں فروشی کا بازار گرم ہی رہتا ہے لیکن ماہ مبارک کی آمد آمد کے ساتھ ہی گراں فروشی ایک نئے کریہہ چہرہ کے ساتھ جلوہ گر ہوجاتی ہے۔ ملیاری سے لے کر داندر، واندر، کاندر اور قصاب اور دوسرے طبقے کسی بھی رو رعایت سے کام نہیں لیتے، ان کی نگاہیں اور توجہ کا تمام تر مرکز جیبوں پر ڈاکے ڈال کر اپنی ناجائز شکم پری پر مرتکز رہتی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ گوشت اور پولٹری کی قیمتوں کا وقفے وقفے سے تعین ایک مسلسل عمل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جب بھی سرکاری سطح پر قیمتیں مقر کی جاتی رہی ہیں کوٹھدار ، قصاب اور پولٹری فروش آپسی گٹھ بندھن کے رشتے میں منسلک ہوکر ان مقررہ قیمتوں میں دس، بیس روپے کا اضافہ کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کا یہ طریقہ کار اب عرصہ سے جاری ہے بلکہ یہ بیماری اب مستقل بن چکی ہے جس کا علاج نہ سرکار کے پاس ہے اور نہ ہی سرکار کے روایتی چیکنگ سکارڈوں کے پاس ہے۔
ماہ صیام کا مبارک مہینہ شروع ہو چکا ہے، اب کی بار بھی کوئی اُمید نہیں کہ کاروباری حلقے اپنے گاہکوں کو کسی قسم کی راحت دستیاب رکھیں گے بلکہ برعکس اس کے ان کی تمام تر کوشش اور توجہ مزید گراں فروشی کے حوالہ سے ہوگی۔ لوگ مہنگائی اور لوٹ کی اس مشترکہ چکی میں پستے اور لٹتے رہینگے، ان گراں فروشوں کو اس کی پروا نہیں۔
فی الوقت کشمیرکے کسی بھی مارکیٹ میں سٹاک اور سپلائی پوزیشن کے تعلق سے کسی قسم کی کمی نہیںہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سارے مارکیٹ مختلف نوعیت کی اشیاء سے بھرے پڑے ہیں۔ا لبتہ عوامی حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ مقامی سٹاکسٹوں اور بیوپاریوں کی ہدایت پر متعلقہ فرمیں اشیاء کی پیکنگ پر جو قیمتیں ایم آر پی کے حوالہ سے چسپاں کررہی ہیں وہ جموں اور دہلی سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ اس کا مقصد بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ایم آر پی کے نام پر بھی لوگوں سے زیادہ سے زیادہ قیمتیں وصول کی جاتی رہیں۔ عوامی حلقوں کا اس حوالہ سے یہ تاثر کس حد تک سچ پر مبنی ہے یا کس حد تک محض مفروضہ پر مبنی ہے اس بارے میں ہم وثوق اور قطعیت کے ساتھ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بعض معاملات میں تجربات، مشاہدات اور پیش آمدہ واقعات کے پیش نظر تاثرات کچھ غلط بھی نہیں ہوتے ہیں۔
مثلاً اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پیکنگ پر زائد المعیادکی تاریخ بھی لکھی ہوتی ہے،لیکن مقررہ تاریخ گذرنے پر پیکنگ کے اندر موجود اشیا کو تلف نہیں کیاجاتا ہے اور نہ ہی آج تک کسی نے کسی سٹاکسٹ ، کاروباری یا بیوپاری کو زائد المعیاد اشیاء کو تلف کرتے ہوئے دیکھاگیا ہے۔ بلکہ برعکس اس کے یہ لوگ کچھ کیمیکل استعمال کر کے مقررہ تاریخ مٹا کر اس پر نئی تاریخ کا ٹھپہ لگادیتے ہیں۔
اس بددیانتی کے مرتکب کاروباریوں کو آج تک گرفت میں نہیں لایاجاسکاہے کیونکہ اس کی وجہ غالباًیہ ہے کہ حکومتی انتظامیہ کے متعلقہ ادارے کو یا تواس طریقہ کار وبار میں دلچسپی نہیں یا انتی گہرائی تک جھانکنے اور پتہ چلانے کیلئے ان کے پاس وقت نہیں۔ اس طرح اس بددیانتی کے مرتکب کاروباری اور تجارتی ادارے براہ راست لوگوں کی صحت، بقا او رسلامتی کیلئے سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں بلکہ لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کا مسلسل ارتکاب کررہے ہیں۔
اس کھلواڑ کا سب سے بڑا انڈیکس وہ امراض ہیں جن میں وادی کی اکثریت مبتلا چلی آرہی ہے۔ زائد المعیاداشیاء ، غیرموثر ادویات اور دونمبر اورغیرمعیاری مصنوعات کاروزمرہ کا استعمال وادی میں جسمانی امراض کی سب سے بڑی بلکہ اہم ترین وجوہات میں ہے۔ قیمتوں کی زائد وصولی تو اپنی جگہ غیر معیاری اشیاء کی کھپت اور خرید وفروخت کشمیر کا دوسرا مستقل عنوان بن چکا ہے۔
کشمیر کسی بھی اشیاء کے تعلق سے خود کفیل نہیں بلکہ ایک کھپت والا خطہ کے طور ملک کے نقشے پر اُبھرچکا ہے۔ اس حقیقت سے ملک کے بیوپاری، فرمیں، کمپنیاں اوردوسرے کاروباری ادارے بخوبی جانکاری رکھتے ہیں۔چنانچہ کشمیر کی اس مجبوری کا ہر ممکن سطح پر اور ہر ممکن طریقے سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی بھر پور کوشش مسلسل ہورہی ہے۔ کشمیرکا کاروباری مافیا ان کے اس طرزعمل اور لٹیرانہ طریقہ کار میں معاونت کاکرداراداکررہاہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی اچھی خاصی شکم پری ہورہی ہے جبکہ بغیر کسی خاص محنت کے بالائی آمدن بھی وصول ہورہی ہے۔ ان کیلئے کشمیر بلا شبہ کسی جنت سے کم نہیں۔
بُنیادی امر یہ ہے کہ لوگ مجبور ہیں اور حکومت کے متعلقہ ادارے تحقیقات اور نگرانی کے جدید ترین طریقہ کار اور سہولیات کے فقدان میں مبتلا ہیں،جس کا براہ راست ناجائز فائدہ کاروبار اور تجارت سے وابستہ مختلف مگرمخصوص طبقے اُٹھارہے ہیں۔بے شک ناجائز منافع خوری کی پاداش میں ریستوران اور تین قصابوں کی دکانوں کو مقفل کردیاگیا ہے، لیکن کب تک؟