کشمیر میں قیام امن کی کوششوں کو اس وقت شدید دھچکہ لگ جاتا ہے جب کسی کا خون ناحق سرزمین کشمیرکو لہو رنگ کرتا ہے۔ چاہئے یہ خون ناحق کسی عسکریت پسند کے ہاتھوں خاکی وردی میںملبوس اور ڈیوٹی پر تعینات اہلکار کا ہو یاکسی فورسز اہلکار کے ہاتھوں کسی بے گناہ اور غیر مسلح شہری کا ہو۔ دونوں صورتوں میں اس خون ناحق کا گرانا قتل عمد کے زمرے میں آتا ہے جو ایک تو اخلاقی اعتبار سے ناقابل معافی جرم ہے دوئم قانون اور ضوابط کی روشنی میں سزاوار ہے۔
کشمیر گذشتہ زائد از تین دہائیوں سے خون میںلت پت ہے ، وزیرداخلہ امیت شاہ نے کشمیرکے اپنے حالیہ دورے کے دوران ابھی چند روز قبل بتایا کہ ان برسوں کے دوران زائد از ۴۲؍ ہزار لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ سول سوسائٹی سے وابستگان کا دعویٰ ہے کہ زائد از ایک لاکھ کشمیر ی ہلاک ہوچکے ہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ کتنے لوگوں ؍شہریوں کو داعی اجل کولبیک کہنے پر مجبور کیاگیا یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ فورسز ؍ پولیس اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں بہت سارے بے گناہوں اور غیر مسلح شہریوں کا خون بہا، ان میں سے بہت سارے معاملات کے تعلق سے سرکاری سطح پر تحقیقات کے اعلانات سامنے آئے، متاثرین اور لواحقین کو ہر واقعہ کے بعد یہ یقین دلایاجاتا رہا کہ ۱۵؍ دن کے اندر اندر مکمل شفافیت کے ساتھ تحقیقات کی جائیگی جس کی روشنی میں جرم کے مرتکب کو قانون کی روشنی میں کیفر وکردار تک پہنچایا جائے گا لیکن خود سرکاری ریکارڈ اور واقعات گواہ ہیں کہ کسی بھی تحقیقاتی عمل کے حوالہ سے پندرہ دن کی مدت نہ ختم ہونے والی مدت ہی ثابت ہوتی رہی، پھر بھی فرض کرلیاجائے کہ تحقیقاتی عمل ۱۵؍دن یازائد از ۱۵؍ دن کے بعد مکمل کرکے سرکارکو پیش ہوتی رہی لیکن تحقیقاتی رپورٹ کی مندرجات یا سفارشات کو آج تک منظر عام پرنہیں لایاگیا بلکہ ہر رپورٹ کو داخل دفترہی بنایاجاتارہا۔
فورسز ہو یا پولیس عام تاثر یہ ہے بلکہ یقین کا ایک اہم مگر بُنیادی جز ہے کہ سرکاری فورسز ایک کمانڈ کے تحت کام کررہے ہیں، وہ ڈسپلن کے پابند ہیں، قانون کی عمل آوری پیشہ ڈیوٹی اور فرائض کے تناظرمیں ان کی اولین ترجیحات ہے اس کے برعکس عسکریت پسند، جنگجو یا دہشت گرد کسی بھی اعتبار سے نہ کسی ڈسپلن کے پابند ہیں اور نہ ہی کوئی اخلاقی معیار انہیں کسی بات کا پابند بناتا ہے ۔ یہ غیر منظم اور ماورائے ریاست جتھے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان سارے حقائق باالخصوص زمینی تناظرمیں کشمیرمیںلوگوں نے بحیثیت مجموعی گذشتہ ۳۰؍ برس کے دوران فورسز کے ساتھ جھڑپوں یا معرکہ آرائیوں میں عسکریت پسندوں کی ہلاکت پرسوا ل نہیں اُٹھایا ہے البتہ آخری رسومات جس کاتعلق تجہیز وتکفین سے رہا ہے میں شرکت ضرور کی ہے۔جس کے کئی وجوہات ہیں۔ لیکن جب جب بھی فورسز؍پولیس کے ہاتھوں کسی بے گناہ شہری کی زندگی چھین لی جاتی رہی تو قاضی گنڈ سے کھادن یار تک اوسط شہری صدمہ میں مبتلا نظرضرور آتا ہے، وہ برہم ہوجاتا ہے اور بعض اوقات لواحقین کے ساتھ مل کر معاملہ کی تحقیقات کا مطالبہ کرکے واقعہ میں ملوث اہلکار(وں) کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرکے اپنے لئے انصاف چاہتاہے۔
اس تناظرمیں چند روز قبل پلوامہ کے ایک گائوں میںناکہ پر معمور کسی اہلکار کی گولی کانشانہ بنے ایک مقامی نوجوان، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ نرسنگ کی تربیت حاصل کررہاتھا، کے لواحقین کا غم، دُکھ اور صدمہ قابل فہم ہے اور ان کا یہ مطالبہ قانون فطرت اور ملکی آئین وقانون کے عین مطابق ہے کہ معاملے میںملوث اہلکار کے خلاف سخت ترین تادیبی کارروائی عمل میںلائی جائے اور بتاجائے کہ اس کا قصور اور جرم کیا تھا کہ اسے گولی کا نشانہ بنایا گیا، لواحقین انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں اور سرکاری تحقیقات کے اعلان سے مطمئن نہیں ، وجہ وہی جو اب تک ایسے ہی لاتعداد واقعات اور معاملات کے تعلق سے تحقیقاتی عمل کی یقین دہانیوں کا ناقابل یقین حشر خود تحقیقات کے اعلانات کرنے والوں کے ہاتھوں ہوتا رہا ہے۔ سرکار ی اعلان میں کہاگیا ہے کہ واقعہ میںملوث اہلکار کو حراست میں لیاگیا ہے اور تحقیقات جاری ہے۔ لیکن اس اعلان کی روح کو اعلان کے ساتھ ہی یہ کہکر پامال اور بے روح بنایاگیا کہ ’’گولی غلطی سے چلی یادوسرے الفاظ میں مذکورہ متوفی مس فائر کا نشانہ بنا‘‘۔
تحقیقات سے قبل ہی گولی کا شکار بنے غیر مسلح نوجوان کی موت کا کارن واضح طور سے سامنے لانے کے بعد اب تحقیقات کس بات کا …؟ اس نوعیت کے واقعات جب وقفے وقفے سے ہوتے رہیں گے تو امن کا خواب کیسے اور کیونکر شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ کشمیر ی عوام ۳۰؍سال سے گھٹن زدہ ماحول اور خوف وخطرات کے سایوں میں بسرکرتے آرہے ہیں۔ امن اور قیام امن ان کی فطرت ثانی ہے، تخریب اور تشدد یاجنون نہیں ،وہ انصاف اور حق پر مبنی گورننس بھی چاہتے ہیں اور ماحول کو مکدر بنانے والے تمام ترخارجی اثرات اورگمراہ کن نعروں سے چھٹکارا بھی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی نہ کوئی ولن کاروپ دھارن کرکے نمودار ہوجاتا ہے اور ماحول کو مکدر کرکے اس کی سمت میں کی جارہی کوششوں کو سبوتاژ کرجاتاہے۔
امن کو سبوتاژ کرنے اور ماحول کو مکدربنانے والے چاہے وردی پوش ہوجایا غیر وردی پوش کسی نرمی یا مصلحت کے مستحق نہیں۔ خود لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا با ربار کہہ چکے ہیں کہ امن خریدا نہیں جاتا بلکہ قائم کیاجاتا ہے۔ ہمارا بھی نظریہ یہی ہے کہ امن کے لئے خرید وفروخت کے بازار نہیں سجانے چاہئے جیسا کہ سابق ادوار کا طرۂ امتیاز رہا ہے بلکہ ماحول ایسا قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ جس میں آبادی اور سماج کے سبھی طبقوں، فرقوں اور سٹیک ہولڈروں کا عملی اشتراک وتعاون حاصل ہو۔
اس اشتراک اور تعاون کو حاصل کرنے اور یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ’’گاندربلی ڈاکٹرئن‘‘ کا سرزمین کشمیر پر احیاء کو موقعہ نہیںملناچاہئے اور نہ ہی اُس دور کے ڈاکٹرئن کے نقش قدم پر کسی وردی پوش یا غیر وردی پوش کے سرپر ہاتھ رکھنے کاوہی گھسا پٹا مگربدبختانہ طریقہ کار روا رکھا جائے جس طرزعمل کے نتائج کشمیر۳۰؍ سالوں سے بھگت رہاہے۔