آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی مسلمانوں کی کچھ سرکردہ شخصیتوں اور کل ہند امامیہ تنظیم کے سربراہ کے ساتھ حالیہ ملاقاتوںاور کچھ مدرسوں کا دورہ کرنے کے دوران زیرتعلیم بچوں کے ساتھ تبادلہ خیالات پر اب تک جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ جہاں ملا جلا ہے وہیں کانگریس کا ردعمل’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘ کے ہی مترادف ہے ۔ کانگریس نے ان ملاقاتوں کو راہل گاندھی کا ’بھارت جوڑو‘یاترا کا ردعمل قرار دے کر دعویٰ کیا ہے کہ یہ یاترا کی ہی کامیابی کا نتیجہ ہے کہ آر ایس ایس اب ملاقاتوں کا سہارالینے لگی ہے جبکہ موہن بھاگوت کو دعوت دی ہے کہ وہ بھی یاترا میں شمولیت کریں۔
کانگریس کے ردعمل کو آر ایس ایس کے ایک لیڈر نے مستردکردیا ہے اور کہا ہے کہ اس نوعیت کی ملاقاتوں ،نشستوںیا تبادلہ خیالات کا تسلسل گذشتہ بیس سالوں سے جاری ہے۔ بہرحال کانگریس ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے یہ حق رکھتی ہے کہ وہ مختلف معاملات پر اپنی فہم اور صوابدید کے مطابق ردعمل ظاہر کرے لیکن یہ دعویٰ کہ راہل کی پد یاترا کی بقول ترجمان کے کامیابی دیکھ کر آر ایس ایس سربراہ ملاقاتوں کا سہارا لینے لگے ہیں زمینی حقائق سے کوئی مسابقت نہیں رکھتے۔
جہاں تک اب تک ہوئے ملاقاتوں پر مختلف حلقوں کی جانب سے ردعمل کا تعلق ہے تو کسی نے ملاقات کرنے والی پانچ سرکردہ شخصیات کو ’’ایلیٹ مسلمان‘ قرار دے کر کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیڈر ہیں اور نہ ہی انہیں مسلمانوں کی نمائندگی کا منڈیٹ حاصل ہے جبکہ ملاقات کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ ۹۰؍ فیصد رائے عامہ نے اس نوعیت کے رابطوں کی حمایت بھی کی ہے اور مستقبل کے حوالہ سے ان رابطوں اور تبادلہ خیالات کو اور زیادہ وسیع کرکے دوطرفہ مسائل کا ذمہ دارانہ اور قابل قبول حل تلاش کرنے کی مانگ کی جارہی ہے۔
حالیہ کچھ برسوں میں نفرتوں ، ہجومی تشدد، گائو کشی ، مندر مسجد تنائو، املاک او راثاثوں پر حملوں، لوجہاد، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا کر دل آزاری کرنے،ایسے کئی ایک معاملات نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے کر امن کی فضا کو ہی مکدر نہیں بنارکھا ہے بلکہ فرقوں کے درمیان یکجہتی اور برادرانہ تعلقات کو بھی بہت زیادہ زک پہنچایا ہے۔ ان اشوز پر دونوں فرقوں کی مقتدر ہستیوں کے درمیان جب تبادلہ خیالات کا موقعہ نکل آئے تو دانشمندی کا تقاضہ اور حکیمانہ طرزفکر یہی ہے کہ موقعہ کو نہ گنوادیاجائے بلکہ آپسی مفاہمت کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
نفرتوں کی کھڑی دیواریں گرانے کیلئے ضروری ہے کہ کہیں نہ کہیں سے پہل کی جائے، اس مخصوص تناظرمیں کی گئی جارہی پہل کا خیر مقدم نہ کرنا بدبختانہ ہی تصور کیاجاسکتاہے جس کی معاشروں کی زندگیوں میںکوئی بھی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ ملاقات کرنے والے مسلم شخصیات کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس سربراہ نے درپیش معاملات کے تناظرمیں ان کی معروضات بڑی سنجیدگی سے سنی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ اختلافی پہلوئوں کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً آر ایس ایس لیڈر نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک کے مسلمان جن کی آبادی تقریباً ۱۵؍ فیصد کے قریب ہے کو اور کسی مذہبی یافرقے کی عینک سے نہیں بلکہ انڈین مسلمان کے نام سے جاننے، پہنچاننے اور ایڈریس کرنے میںکوئی قباحت نہیں ہے۔ اسی طرح ملک کی اکثریتی آبادی گائے کو ایک مقدس مقام دیتی ہے لہٰذا ان کے عقیدے اور جذبات کا احترام دوسرے فرقوںپرلازم آتاہے ، جس پر اتفاق پایاگیا۔ اسی طرح نفرت آمیز بیانات یا مذہبی جذبات اور مذہبی عقیدے پر حملہ کرنے والوں کے خلاف مروجہ قوانین کی روشنی میں تادیبی کارروائی کرنے پر بھی اتفاق رائے پایاگیا۔ اس حوالہ سے بی جے پی کی خاتون ترجمان نوپور شرما اور کچھ مذہبی اجتماعات میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنے اور مسلمان عورتوں کی عصمت پر حملوں کا معاملہ بھی زیر بحث لایاگیا ۔
بحیثیت مجموعی ان سارے معاملات جو دل آزاری، ہجومی تشدد ، امن وقانون کی فضامکدر بنانے، املاک اور اثاثوں کے اتلاف وغیرہ کا موجب بن جاتے ہیںپر روک لگانے کی ضرورت پر اتفاق کیاگیا۔ لیکن ملاقاتیوں سے اس مخصوص تناظرمیں یہ سوال کیاگیا کہ آر ایس ایس بے شک حکمران جماعت کی ’ماں‘ کا درجہ رکھتی ہے جبکہ قانون کی عمل آوری اور فرقوں کے درمیان آپسی برادارانہ رشتوں کو ایک صف پر لانے کے تعلق سے کردار حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کو آر ایس ایس سربراہ نے اس ضمن میں مناسب کردار اداکرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
عین اس وقت جبکہ اس نوعیت کے تبادلہ خیالات کیلئے ایک نئی فضا سایہ فگن ہوتی نظر آرہی ہے ملک کی عدالت عظمیٰ نے بھی معاشرے میں نفرت آمیزی باالخصوص میڈیا کی وساطت سے منافرت آمیز معاملات پر بحث کرنے ،اسے تقویت پہنچانے اور ٹیلی ویژن اینکروں کے رول کولے کر اپنی سخت برہمی اور فکر مندی کو زبان دی ہے ۔ حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس تعلق سے ’ریڈلائن ‘مقرر کرے جبکہ ٹیلی ویژن اینکروں پر بھی بحث ومباحثوں کے دوران ذمہ دارانہ کردار اداکرنے کا پابند بنانے کیلئے کہا ہے۔
مرکزی وزیراطلاعات انوراگ ٹھاکرنے سپریم کورٹ کی ہدایات سے محض ایک روز قبل اسی تعلق سے ایک اہم بیان دیا جس میں اور باتوں کے علاوہ انہوںنے کہا کہ ’مین سٹریم میڈیا کیلئے سب سے بڑا خطرہ میڈیا چینلز ہیں…ایسے ٹی وی مباحثوں کو روکا جائے جن سے سماج میں تفریق پیدا ہوا اور معاشرے میں نفرت اور تشدد کو فروغ ملتا ہو…‘‘ظاہر ہے یہ سب کچھ جو تقریباً بیک وقت یا ایک دوسرے کے آگے پیچھے خیالات کے تبادلوں ، بیانات اور مشوروں کی صورت میں سامنے آرہا ہے محض اتفاق نہیں ہوسکتا ہے بلکہ بادی النظرمیں کہاجاسکتا ہے کہ ملک کے اندر باالخصوص سنجیدہ ،حساس اور ذمہ دار حلقوں میں نفرتوں پر مبنی کھڑی کی جارہی دیواروں کے مہلک ترین اور سنگین ترین مضمرات کو محسوس کیاجارہاہے جو ملک کی یکجہتی، رواداری، سب کا ساتھ سب کا وشواس، سلامتی ، ترقی اور امن کی راہ میں سم قاتل ثابت ہوسکتے ہیں۔