کسی بھی سیاسی مکتب فکر سے وابستہ سیاستدان چاہئے اپنی تقریر سنانے کیلئے کتنا ہی بڑا عوامی دربار سجانے میںکامیاب ہو لیکن اصل میں کامیاب وہی سیاستدان ہے جو عوام کو درپیش گونا گوں مسائل اور روزمرہ معمولات کے تعلق سے عوام کو درپیش تکالیف اور مشکلات کو سنجیدگی سے ایڈریس کرکے ان کا حل تلاش کرے یا حکومت اور عوام کے درمیان ایک پُل بن کر مسائل کے حل کی تلاش اور راہ میں حائل رکاوٹوں کو دورکرنے کی سمت میں تجاویز بھی پیش کرے اور خود بھی فعال کردار اداکرے۔
بہتر گورننس کے تعلق سے بہت کچھ کہا اور سنایا جارہاہے جبکہ حکومت کی جانب سے اس سمت میں آئے روز اقدامات اُٹھانے کا بھی سلسلہ جاری ہے ، اس بات کی بھی کوششیں کی جارہی ہے کہ بہتر گورننس کے حوالہ سے عوام کو اپنی دہلیز پر ہی خدمات دستیاب رکھی جائیں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بعض انتظامی اکائیوں کی جانب سے حکومتی سطح پر اُٹھائے جارہے اقدامات اور راہنما خطوط کو نظرانداز کیاجارہاہے ، لوگوں کی بلا کسی معقول وجہ کے تنگ طلبی اور ہراسانی کا نشانہ بنایا جارہاہے یا کسی حوالہ سے اپنی لذت پسندی کی تکمیل کیلئے ایسے لوازمات کی تکمیل کیلئے کہا جارہاہے جن لوازمات کابظاہر اصلی معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگرمعاملہ بادشاہ سے زیادہ وفاداری کا ہوتا تو بات قابل فہم تھی لیکن یہاں معاملہ بادشاہ سے زیادہ وفاداری کا ہرگز نہیں بلکہ رگوںمیں دوڑنے والے خون میں کسی روایتی تعصب یا عصبیت کا عمل دخل ہے یا محض لذت پسندی کا حصول۔
اس حوالہ سے سرینگر کا پاسپورٹ آفس کچھ ایسا ہی بلکہ اس سے کچھ زیادہ منظرنامہ پیش کررہاہے جن معاملات، جنہیں زیادتیوں اور بلاجواز تنگ طلبی بھی کہاجاسکتا ہے کی طرف جموںوکشمیر ورکرس پارٹی کے سربراہ میر جنید نے بھی اپنے ایک ٹیوٹر بیان میںواضح طو رسے نشاندہی کی ہے اورجسے پاسپورٹ کے حصول کیلئے خواہشمند شہریوں کیلئے ’’ایک ڈرائونا خواب‘‘قراردیاہے ۔
پاسپورٹ کے خواہشمند شہریوں کو جن مشکلات سے گذرنا پڑرہاہے میر جنید نے ان میں سے چند ایک کی واضح طور سے نشاندہی کرکے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا سے اپیل کی ہے کہ وہ ذاتی طور سے مداخلت کرکے خواہشمند شہریوں کے سروں سے اس ڈراونے خواب کو ہٹاکر انہیں راحت کا سانس لینے کا موقعہ فراہم کریں۔ جن معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے ان کے علاوہ بھی خواہش مند شہریوں کو دیگر رکاوٹوں اور مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہاہے۔
مثال کے طور پر انا پاسپورٹ کی معیاد ختم ہوجانے پر نیا پاسپورٹ کیلئے اجرائی کی درخواست میں کسی وجہ سے یا لاعلمی کے کارن پرانے پاسپورٹ کا حوالہ دینے سے رہ جائے تو ایسے افراد کی درخواست کو نہ صرف مسترد کیاجاتا ہے بلکہ جرمانہ بھی وصول کیاجاتا ہے اور نیا درخواست دائر کرنے کیلئے مقرر فیس بھی وصول کی جاتی رہی ہے ۔ انسان غلطیوں کا پتلا ہے غلطی کس سے سرزد نہیں ہوتی ،ہونا تو یہ چاہئے کہ علاقائی پاسپورٹ دفتر سے وابستہ ملازمین بجا طور سے اس غلطی کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ہی سائل کو مالیاتی اور جسمانی سزا دینے کے بجائے موقعہ پرہی غلطی کو درست کرنے کا موقعہ فراہم کریں۔ لیکن ایسا نہیںکیاجارہاہے ۔بلکہ دوسرے راستے اختیار کرکے سائل کو چلتا کیاجارہاہے۔ بے شک ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قانون سے لاعلمی کوئی عذر نہیں البتہ یہ بھی تو تلخ سچ ہے کہ ملک کی ایک سو تیس کروڑ نفوس تمام تر قوانین، قوائد اورمروجہ ضوابط کی کلی علمیت رکھتے ہیں یا جزوی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کروڑوں کی تعدادمیں لوگ وہ ہیں جنہیں قوانین کا کوئی علم نہیں، البتہ کسی ضرورت کی وجہ سے اپنی سہولیات کے حصول کیلئے عرضداشت پیش کرتے وقت وہ زیادہ توجہ نہیں رکھتے، یہی وہ مرحلہ ہے جب کسی متعلقہ انتظامی یونٹ؍دفتر سے وابستہ ملازمین ایسے درخواست گذار کی راہ نمائی کرے اور لوازمات کی تکمیل کی سمت میں اس کی مددکریں۔
ٹیوٹر بیان میں اس اہم سوال کو بھی ایڈریس کرنے کی ضرورت اُجاگر کی گئی ہے کہ اگر تجدید پاسپورٹ کا مسئلہ ہے تو اس تجدید کا تعلق درخواست گزار کی ماں کے پاسپورٹ کے ساتھ کیوں ہے جبکہ اس طرح کا تقاضہ ملک کی کسی بھی دوسری ریاست میں نہیں ہے، میر جنید نے پاسپورٹ دفتر سرینگر کے اس طرزعمل اور طریقہ کار کے حوالہ سے ایک نیا’ ٹروما مرکز‘ قراردیا ہے۔ پاسپورٹ آفس کے اہلکاروں نے پاسپورٹ آفس کو شہریوں کے لئے صدمہ کا ایک نیا مرکز بناکرخواہشمند شہریوں (درخواست گذاروں) کیلئے تنگ طلبی کا فلڈ گیٹ کھولدیا ہے۔ بیان میں کئی دوسرے معاملات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جنہیں ایڈریس کرنے کی ضرورت کا مطالبہ کیاگیاہے۔
یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ علاقائی پاسپورٹ دفتر بحیثیت مجموعی عوامی حلقوں کی زبردست تنقید کا مرکز بھی بنا ہے خاص کر اُس وقت جب ایک محتاط اندازہ کے مطابق ۴۰؍ ہزار درخواستیں ایک مرحلہ پر التواء کی نذر کر دی گئیں تھی۔ ان چالیس ہزار درخواستوں کی اکثریت ان طالب علموں کی تھی جو حصول تعلیم کیلئے ملک سے باہر جانا چاہتے تھے، روزگار کے متلاشیوں کی تھی جنہیں مختلف ممالک سے ملازمتوں کی پیشکش ہوئی تھی یا کاروبار کے سلسلے میں ملک سے باہر جانا چاہتے تھے۔ درخواست گذاروں کی ویری فکشن کو ایک پیچیدہ مسئلہ بنا یاگیا یا گڑھے مردے اُکھاڈ کر ان کے حق میں پاسپورٹ کے اجرا کو تقریباً ناممکن بنایاجاتارہا۔
وزیراعظم چاہتے ہیں اور اس چاہت یا خواہش کا برملا اظہار وزیراعظم اب تک کئی بار کرچکے ہے کہ دہلی سے دور ی اور دل سے دوری ختم ہوجائے، وزیراعظم کی اس خواہش کی تکمیل کی اولین ذمہ داری مقامی انتظامیہ سے وابستہ ملازمین کی ہے لیکن اگر علاقائی پاسپورٹ آفس ایسے ادارے اپنے موجودہ طرزعمل اور فرسودہ اور ناقابل فہم طریقہ کارپر بضد رہے یا اپنی خواور وضع تبدیل کرنے کیلئے فکری اور جسمانی طور سے آمادہ نہ ہوئے جس کی طرف ورکرس پارٹی کے صدر نے اشارہ کیا ہے تو وزیراعظم کا دوری اور فاصلوں کو مٹانے کی چاہت اور خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوپائیگی۔