ایک ایسی یونین ٹیرٹری جو اپنے اخراجات کیلئے مکمل طور پر دہلی کی مالی امداد پر منحصر ہو ۔ایک ایسی یونین ٹریٹری جس میں سرکاری ملازمین کی تعداد کم و بیش پانچ لاکھ ہو‘۔ایک ایسی یونین ٹریٹری ‘ جہاں پرائیویٹ سیکٹر میں روز گار کے اتنے زیادہ مواقع دستیاب نہیں کہ بے روز گاری کے مسئلہ سے نمٹا جاسکے۔ایک ایسی یونین ٹریٹری جہاں زائد از ۲۰ ہزار میگاواٹ پن بجلی پیداکرنے کی صلاحیت تو موجود ہے ‘ لیکن محدود مالی وسائل کی وجہ سے پن بجلی کے پروجیکٹوں کی تعمیر ممکن نہیں ہو پا رہی ہے ۔ایک ایسی یونین ٹریٹری جہاں ۳۵ ہزار کروڑ روپے مالیت کے کاموں کو انجام دینے کیلئے ۷۰ ہزار کروڑ روپے صرف کرنے پڑیں وہاں زائد از ۶۰ ہزار یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی مستقلی آسان نہیں ہے ‘کسی بھی حکومت کیلئے نہیں ‘وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کی حکومت مستثنیٰ نہیں۔
یہ سرکاری خزانے پر ایک اضافی بوجھ ہو گا ایسا بوجھ جو بظاہر جموں کشمیر اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ‘ لیکن جیسا کہ وزیر اعلیٰ ‘ عمرعبداللہ نے حالیہ دنوں اسمبلی میں کہا کہ یومیہ اجرات پر کام کرنے والوں کی مستقلی ایک انسانی مسئلہ ہے تو امید یہی کی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت ‘ ان لوگوں کی مستقلی کا کوئی راستہ نکالے گی ۔
حکومت نے لائحہ عمل طے کرنے کیلئے چیف سیکریٹری ‘اتل ڈولوکی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جسے ۶ ماہ میں اس ضمن میں ایک روڈ میپ تیار کرنے کا کام سونپ دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اگلے برس جب وہ اسمبلی میںبجٹ پیش کریں گے تو یومیہ اجرات پر کام کرنے والوں کے بارے میں تب تک کوئی ٹھوس صورتحال سامنے آئی ہو گی ۔
وزیر اعلیٰ کا یہ اعلان گرچہ اطمینان بخش ضرور ہے‘ لیکن امید یہی کی جا سکتی ہے کی یہ اعلان ‘ صرف اعلان کی حد نہ رہے ۔ ۲۰۱۴ کے بعد بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت نے ہر سال اپنی بجٹ تقاریر میں یومیہ اجرات پر کام کرنے والوں کی مستقلی کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور کہا ‘ لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا ۔۲۰۱۸۔۲۰۱۹ کے مالی سال میں ایک ایس آر او ،۵۲۰ بھی جاری کیا گیا جس کے تحت ۵۷۰ ڈیلی ویجروں کو مستقل کیا گیا ‘ لیکن بات اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھ گئی ۔
اگست۲۰۱۹ کے بعد تنظیم نو ایکٹ کے تحت اس ایس آر او کو بھی کالعدم قرار دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی یومیہ اجرات پر کام کرنے والوں کی مستقلی کا معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا ۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ان کی مستقلی اور نہ ان کے مستقبل کے حوالے سے کوئی کام ہوا اور اب جبکہ جموں کشمیر میں ایک جمہوری حکومت موجود ہے ‘ یہ معاملہ ایک بار پھر سرخیوں میں آ رہا ہے ۔
مستقلی کا معاملہ پرانا ہے ‘ جس کیلئے کسی ایک جماعت کو مورد الزام ٹھہرایا نہیں جا سکتا ہے ‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیت ہے کہ کوئی بھی جماعت خود کو بری الزامہ قرار نہیں دے سکتی ہے جس نے اپنے اپنے دور اقتدار میں سیاسی مصلحتوں کے تحت یومیہ اجرتوں پر کام کرنے والوں کی ایک فوج کھڑا کر کے رکھ دی اور بعد میں ان سے منہ پھیر لیا ۔
مہنگائی کے اس دور میں چند سو روپے کی تنخواہوں میں گزارہ مشکل نہیں ناممکن ہے ۔ایک قلیل تنخواہ ‘ جوانہیں وقت پر واگذار بھی نہیں کی جاتی ہے‘ پر یہ لوگ کیسے گزارہ کرتے ہوں گے ‘ اس کا اندازہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔یہ اور ان کے بچے جس تکلیف سے گزر رہے ہوں گے ‘ حکومت اس سے منہ نہیں پھیر سکتی ہے اور اسی لئے جب کم و بیش چھ سات برسو کے بعد جموں کشمیر میں وجود میں آئی ایک جمہوری حکومت کے ہوتے ڈیلی ویجروں پر پولیس نے سرینگر اور جموں میں لاٹھیاں برسائیں تو عوامی سطح پر اس کا شدید ردعمل سامنے آیا ۔
اسمبلی میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے مسئلہ پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ‘عمر نے ان کی مستقلی سے نمٹنے میں ماضی کی ناکامیوں کا اعتراف کیالیکن ساتھ سوال کیا کہ حالات اس مقام تک کیوں پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بھی تعجب ہوتا ہے کہ ان ملازمین کیلئے چیزیں اس طرح کیوں بن گئیں اور تسلیم کیا کہ ماضی میں ان کی حکومت نے ان کیلئے کچھ نہیں کیا گرچہ وہ اس ضمن میں منصوبہ بندی کررہے تھے ۔وزیر اعلیٰ نے ۲۰۱۴ میں اسمبلی الیکشن ہارنے کی یہ بھی ایک وجہ قرار دی ۔
خیر! وزیر اعلیٰ کے پاس اب ماضی کی غلطی کو سدھارنے کا ایک موقع ہے اور توقع کی جانی چاہیے کہ اب کی بار وہ ماضی کی اس غلطی کو نہیں دہرائیں گے اور اس مسئلہ کو ‘ جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے انسانی زاویے سے دیکھ لیں گے ۔
یقیناحکومت کیلئے یہ کوئی آسان کام نہیں ہو گا ۔جموں کشمیر میں پہلے ہی روز گاروں کی ایک فوج کھڑی ہے ۔حکومت نے جاری بجٹ اجلا س میں معلومات فراہم کیں کہ جموںکشمیر کے جاب پورٹل پر ۳لاکھ ۷۰ ہزار پڑھے لکھے بے روزگار رجسٹر ہیں جبکہ ایسے بے ورزگاروں کی بھی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے ‘ جو نے خود کو اس پورٹل پر رجسٹر نہیں کیا ہے ۔
ان بے روز گاروںکی توقعات کا بوجھ پہلے ہی حکومت کے نازک کندھوں پر ہے ‘اور ایسے میں کم و بیش ۶۱ ہزار یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی مستقلی اس کیلئے ایک چیلنج ہوگا جس سے اسے نمٹنا پڑے گا ۔
چیف سیکریٹری کی سربراہی میں جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ‘ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اپنی مقررہ مدت میں یومیہ اجرات پر کام کرنے والوں کی مستقلی کا کوئی ایسا لائحہ عمل اور روڑ میپ پیش کریگی جس سے ان کا یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہو سکے ۔بعد ازاں یہ حکومت کے ذمے ہے کہ وہ کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرکے یومیہ اجرتوں پر کام کرنے والوں کی مستقلی عمل میں لاکر ان کا مستقبل محفوظ بنائے ۔