جموںوکشمیر کا ہیلتھ سیکٹر اُوپر سے نیچے تک بلکہ بڑے پیمانے پر سرجری کا بھی تقاضہ کررہا ہے اور طبی نگہداشت ، تشخیص، خدمات اور اپروچ کے تعلق سے بھی جدید تقاضوں اور عوام کی طبی ضروریات کے مطابق اصلاحات کا متمنی ہے۔ ہمارے حکمران، بیروکریٹ جو بدقسمتی سے حالیہ کچھ برسوں کے دوران خود کو نہ صرف حرفن مولا، اختیارات اور فیصلہ سازی کے تعلق سے خود کو حرف آخر اور پھر اگر سیاستدان شومئے قسمت صاحب اقتدار بھی ہوتا ہے تو وہ شعبہ کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتے ہوئے ایسا تاثر دیتا ہے کہ جیسے وہ شعبہ طب کے بارے میں الف سے ی تک ساری علمیت، جانکاری اور ماہر اُستاد کی حیثیت رکھتا ہے اور جب جب بھی ان حضرات کو فیصلہ سازی کا موقعہ ملتا ہے تو یہ عوامی ضروریات اور خواہشات کو نہیں بلکہ کچھ اور ہی مصلحتوں باالخصوص اپنی سیاسی ضرورتوں کے مطیع فیصلے صادر کرتے ہیں۔
یہ طرز عمل آج کا نہیں بلکہ عرصہ سے یہی چلا آرہاہے جس کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوتا جارہا ہے کہ شعبہ طب اور ان سے وابستہ مختلف نوعیت کی خدمات باالخصوص ہنگامی صورتحال کے حوالہ سے بوجھ کی تاب لانے کی دم سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی طبی نگہداشت اور تشخیص امراض کی نوعیت کی مطلوبہ کسوٹی پرپورا اُتر پاتی ہیں ۔
وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے جموں میںمیڈ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کم وبیش ان اشوز میں سے کچھ ایک کی طرف توجہ مبذول کرتے ہوئے اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ اصلاحات اور سدھار کی ضرورت اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران جموںوکشمیر میں برسراقتدار آتی رہی حکومتوں اوران کی سرپرستی میںپرورش پاتی رہی ایڈمنسٹریشن نے جو غلط فیصلے کئے، انہیں من مانیوں کے تحت عملی جامہ پہناتے رہے، اقتدار اور انفرادی خواہشوں اور مصلحتوں کے پیش نظر تعیناتیوں، تقرریوں اور تبادلوں کے حوالوں سے جو اقدامات کئے جاتے رہے،مارکیٹ میں ادویات کی کھپت اور تشخیص کے حوالہ سے خدمات اور اپروچ کے تعلق سے جن ترجیحات کی سرپرستی کرکے اجازت دی جاتی رہی اور علاقوں اور مریضوںکی بُنیادی اوراصل ضرورت کے بجائے سیاسی مصلحتوں کے تحت صحت مراکز کے قیام کی منظوری دی جاتی رہی وہ غلط اقدامات اور فیصلے آج سرچڑھ کر بول رہے ہیں اور جو سرپرستی کرتے رہے آج وہی ان میں تبدیلیوں کی بات کررہے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ صحت عامہ کے تعلق سے ہر اقدام کی تان پہلے اربن علاقوں کوملحوظ نظر رکھتے ہوئے پوری کی جاتی رہی جبکہ رورل علاقوں کو نظرانداز کیا جاتا رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں سے آج بھی روزانہ بھاری تعاد میں ریفرنس معاملات کو شہر کی طرف دکھیلا جارہا ہے جو صحت عامہ کے بُنیادی اصولوں، ضروریات اور قوائد کی صریح ضد ہے۔ کچھ حالیہ برسوں کے دوران بھی انہی غلطیوں کو دہرایا جاتا رہا اور غلط فیصلے لئے جاتے رہے ۔
حکومت اور ایڈمنسٹریشن نے بیرونی کمپنیوں کو شہر اوراس کے مضافات میں اپنے نئے صحت مراکز کی تعمیر اور قیام کی منظوری دی۔ انہیں کروڑوں روپے مالیت کی اراضیاں الاٹ کی جاتی رہی، ایسے کئی مراکز حالیہ چند برسوں کے دوران شہر کے مضافات یا بذات خود شہرکے مختلف حصوں میں قائم کئے گئے، صحت عامہ کے تعلق سے کوئی ایک بھی مرکز کسی دیہی علاقے میں قائم نہیں کیاگیا۔ صحت عامہ کے شعبے کے تعلق سے خدمات، تشخیص، طبی نگہداشت وغیرہ کی ضمن میں یہ عدم توازن آبادی کے لئے بہت سارے مسائل کی پیداوار ہے۔
صحت عامہ کے تعلق سے غلطیوں کا اعادہ یا غیر ضروری فیصلوں کو ہی ضرورت اور حرف آخر قرار دیتے رہنا تما م برائیوں اور مرتب ہونے والے منفی اثرات اور نتائج کی آبیاری کے مترادف ہے۔ خود اس شعبے سے وابستہ کاروباریوں اور لوگوں کا یہ اعتراف ریکارڈ پر موجود ہے کہ جموںوکشمیر میںایسے لوگ بھی ادویات کی سپلائی، خرید وفروخت وغیرہ سے وابستہ ہیں جو صحت کی اب ج د سے بھی واقف نہیں اور نہ ہی وہ حکومت کے کسی مستند ادارے میں رجسٹرڈ ہیں یا لائسنس یافتہ ہیں۔ یہی وہ لوگ اور کاروباری ہیں جو بیرون جموںوکشمیر ادویات فیکٹریوں سے ساز باز کرکے غیرموثر اور نقلی ادویات کے کاروبار میںسراپا ملوث ہیں اور سالانہ نہ صرف کروڑوں کی کمائی کررہے ہیں بلکہ مختلف امراض میں مبتلا لوگوں کی صحت اور سلامتی کے ساتھ بھی مجرمانہ کھلواڑ کررہے ہیں۔ حکومت کا متعلقہ ادارہ جسے عرف عام میں ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے نام سے موسوم کیاجارہاہے اس بدعت اور ہلاکت خیز سرگرمیوں میں یاتومعاونتی کردار ادا کررہا ہے یا نظریں چراکر اس دھندہ کی آبیاری کررہا ہے۔
اس حوالہ سے جو قصے کہانیاں ، دانستانیں اور معاملات چرچے میں ہیں انہیں یہاں بیان نہیں کیاجاسکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ایک ایسا فلڈ گیٹ کھل جائے گا جو پھر بہت سارے چہروں کو بے نقاب کرکے رکھدے گا جن میںوہ کئی چہرے بھی شامل ہیں جنہیں پیشے کے حوالہ سے معتبر، مستند اور معزز سمجھا جارہاہے۔
بہرحال اب جبکہ خود وزیراعلیٰ نے کئی ایک خامیوں کی نشاندہی کی ہے، صحت عامہ کا شعبہ گورننس کے دوہرے ماڈل کے باوجود خود ان کی حکومت کے دائرہ کار میں ہے لہٰذانئے صحت مراکز کی تعمیر، قیام، زمین کی الاٹمنٹ، ادویات کی سرکاری سطح پر خرید وفروخت ، ہسپتالوں اور طبی مراکز اور لیبارٹریوں کی جانب سے مختلف تجزیوں کے عوض جو چارجز وصول کئے جارہے ہیں ان میںمعقولیت لانے، دہی علاقوں کی آبادی کوبلاک، تحصیل اور ضلع سطح پر طبی نگہداشت اور خدمات میسررکھنے کی سمت میں نئے اقدامات کی پہل اور ماضی قریب میں اس حوالہ سے لئے جاتے رہے فیصلوں پر نظرثانی، ڈاکٹروں اور نرسنگ عملے کی تعیناتی کے موجودہ طریقہ کا رمیں مقامی ضروریات کے مطابق تبدیلیاں کرنے، موثر اور فعال ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے، ایسے اقدامات جموںوکشمیر کی وزارت صحت عامہ ، اس کے ماتحت سیکرٹریٹ اور ڈویژنل سطح کے ناظموں کی اپروچ اور طریقہ کار کی ترجیح ہونی چاہئے۔
یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں کہ جموں وکشمیر باالخصوص کشمیرکی آبادی کا زائد از ۸۰؍ فیصد کسی نہ کسی بیماری میںمبتلا ہے، ذیابطیس ، کینسر، امراض قلب، موسمی بیماریاں، سی او پی ڈی، آرتھو پیڈیکس ، کڈنی ، بلڈپریشر، تھائی رائیڈ محض چند ایک حوالہ جات ہیں۔ ان میںمبتلا افراد کا بھاری رش نہ صرف سرکاری ہسپتالوں میںروزکا معمول ہے بلکہ پرائیوٹ کلنکوں پر بھی انہی امراض میں مبتلا افراد قطاروں میں منتظر نظرآرہے ہیں۔ تقریریں کرنے اور بڑے بلند وبالا دعوے کرنے سے اس نوعیت کے حساس اور فوری توجہ کے حامل معاملات کا حل تلاش نہیں کیاجاسکتا ہے، یہ عملی اورٹھوس اقدامات اور فیصلہ سازی کاتقاضہ کررہے ہیں۔ ماضی میں جن حکومتوں سے غلط فیصلے ہوتے رہے ہیں ان میں نیشنل کانفرنس کی حکومتوں کا بھی اچھا خاصہ حصہ رہا ہے۔ اب مزید نہیں، اگر وزیراعلیٰ کو اعتراف ہے کہ اصلاحات درکار ہیں تو وزیر اعلیٰ عملی اقدامات بھی یقینی بنائیں۔
۔۔