جموں خطے میںجہاں بی جے پی کو کئی ایک حلقوں میں اپنے ہی باغی اُمیدواروں اوران کے حامیوں کے غصے اور ناراضگی کا سامنا ہے وہیں کشمیر میں نیشنل کانفرنس کانگریس اتحاد سے وابستہ اُمیدواروں کو بھی کچھ ایک حلقوں میں اسی صورتحال کاسامنا ہے۔البتہ کشمیر کے حوالہ سے جو منظرنامہ اب تک نامزدگیوں کے حوالوں سے اُبھر کر سامنے آیاہے وہ انتشاری کیفیت کی طرف جہاں واضح اشارہ کررہا ہے وہیں معاشرتی اور سیاسی پہلوئوں سے کچھ ایسے عندے سامنے آرہے ہیں جو کشمیر کے حوالہ سے مثبت ، تعمیری یا صحت مند اندازفکر سے عبارت نہیں۔
الیکشن میدان میں سبقت حاصل کرنے، اپنے مخالفین پر مسلسل اور اندھا دھند تیر چلانے ، ان کی برائیوں او رمفادات کے حوالہ سے خامیوں اور عزائم کا پردہ چاک کرنے یہاں تک کہ ماضی کے حوالہ سے ان کی سیاست، سوچ اور کردار کے تعلق سے غلطیوں اور زیادتیوں کی نشاندہی کرکے ان پر نظریاتی بالادستی حاصل کرنے کی کوششیں نئی یا حیران کن نہیں، البتہ جوپارٹیاں ان راستوں پر گامزن ہیں خود ان کا کردار بھی دودھ کا دھلا نہیں، کشمیر اس تعلق سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔
ہر پارٹی تواتر کے ساتھ دعویٰ کررہی ہے کہ ان کی پارٹی اگلی حکومت اپنے بل بوتے پر تشکیل دے گی، اس مقصد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ووٹروں کو رجھانے اور اپنی طرف راغب کرنے کیلئے کچھ ایسے بیانات اور نرٹیوز کا سہارالیاجارہا ہے جو بادی النظرمیں بھی زمینی حقائق سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود دعوئوںکی راگنی کا الاپ مسلسل ہے۔ کئی اشوز کو اُبھار ا جارہا ہے ، کئی اشوز پر زبردست بیان بازی ہورہی ہے، ترقیات، امن ،خوشحالی ، دہشت گردی ، سیاحت ، سرمایہ کاری ، نئے میڈیکل اداروں کے قیام ، ریل کے توسیعی پروجیکٹ ، چارلین سڑکوں کی تعمیر ، سرینگر اور جموں کیلئے ایمز کی منظوری، ایسے کاموں اور پروجیکٹوں کیلئے کریڈٹ اپنے سرلینے کے دعویٰ اپنی جگہ لیکن ان معاملات کے حوالہ سے جو انداز ، طریقہ اور لہجہ استعمال کیا جارہاہے وہ یکطرفہ ،تحکمانہ اور آمرانہ ہے، جس کسی نے تخت اقتدار پر براجماں ہوکر یہ کام انجام دیئے وہ اس بات کوذہن میں رکھے کہ انہوںنے جموں اور کشمیرکے عوام پر کوئی احسا ن نہیں کیا ہے ، ان سہولیات اور امورات کا حصول عوام کا جمہوری حق ہے لیکن نظریاتی بالادستی اور جنونیت کی راگنی کے ہوتے کیا کہا جاسکتا ہے ۔
رائے دہندگان اس مخصوص نریٹو اور اس حوالہ سے کئے جارہے دعوئوں کو غیر متاثر کن قرار دے رہے ہیں کہ کشمیر نشین کچھ ایک پارٹیاں باالخصوص نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی ماضی میں شرکت اقتدار کے حوالہ سے موجودہ حکمران جماعت بی جے پی کی شریک رہی ہیں۔ لیکن اسی حوالہ سے جب ایک فریق ان دونوں پارٹیوں کو اب انٹی نیشن کے طور پیش کررہی ہیں اور مسلسل طور سے ان دونوں پر یہ الزام لگارہی ہیں کہ وہ کشمیر میںعلیحدگی پسندی، پاکستان کی معاونت سے دہشت گردی اور ملک دُشمن ماحول کو دوبارہ واپس لانا چاہتی ہیں تو اس کا اثر یقینالوگوں کی سوچ اور طرزعمل پر مرتب ہوتا جارہا ہے۔
اسی تعلق سے جب یہ دونوں پارٹیاں کشمیر نشین اپنی کچھ مخالف پارٹیوں … اپنی پارٹی، سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس اور اب یوٹرن لیتے انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی پر حکمران جماعت بی جے پی کی پراکسی کے طور پیش کررہی ہیں تو عوامی سطح پر اس راگنی کا بھی مختلف پہلوئوں سے منفی اور مثبت دونوں طرح کا ردعمل سامنے آرہا ہے۔
کشمیر کے انتخابی منظرنامہ کو نظریاتی، سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے انتشار کی نذر کرنے کیلئے سوشل میڈیا اور ایک مخصوص فکر کے حامل کچھ میڈیا چینلوں کا رول منافقانہ بھی تصور کیاجارہاہے اور شرانگیزی سے عبارت بھی۔ جموںمیں کسی میڈیا ہائوس نے کوئی سٹیج نہیں سجایالیکن کشمیر میں کئی میڈیا ہائوسوںنے اپنے اپنے مخصوص سٹیج جنہیں دکانیں بھی کہا جاسکتا ہے قائم کررکھے ہیں۔ ایسا کرنے کیلئے انہیں آزادی حاصل ہے لیکن رائے عامہ کے ذہنوں کو متاثر کرنے کیلئے جو انداز اختیار کیاجارہاہے وہ جرنلزم کے مقدس پیشے او راس کے تقدس سے مسابقت نہیں رکھتا۔
بی جے پی کی لیڈر شپ کالعدم شدہ دفعہ ۳۷۰؍ کے تعلق سے مسلسل مہم چلارہی ہے اور اس کے خاتمہ کے دفاع میں اپنا مخصوص نریٹوا ور موقف پیش کررہاہے۔کنیا کماری سے راس کماری تک اور شمال مشرقی ریاستوں سے پنجاب گجرات اور مہاراشٹر تک اس مخصوص موقف او رنرٹیو کو بھر پور دفاع کے ساتھ پیش کیاجارہاہے۔ میڈیا کے جتنے بھی چہرے ہیں وہ اس نریٹو کوبالکل اسی انداز اور فکر کے ساتھ پیش کررہاہے۔ لیکن جب انہی دفعات کی بحالی کے حوالہ سے فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی یااور کوئی بات کررہاہے تو یہی میڈیا ان کے بیانات کو ’’کنٹروورشل ‘‘ قرار دے کر ایک طوفان برپا کرنے کاراستہ اختیار کررہاہے۔
اسی اشو کو بات کا بتنگڑا اور کنٹروورشل بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کچھ لوگ یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ کانگریس مخمصے میں ہے کہ دفعہ ۳۷۰؍ کی حمایت کی جائے یا مخالفت۔ درحقیقت مقصد یہ ہے کہ اس سوال پر دونوں اتحادی پارٹیوں کے درمیان اختلافات کی بُنیاد ڈالی جائے جبکہ دونوں پارٹیاں اس مخصوص اشو کے تعلق سے یہ واضح کرچکی ہیں کہ کامیابی کی صورت میں یہ ان کا پہلا ہدف نہیں ہے ،دونوں اپنا اپنا موقف رکھتی ہیں۔
آزادی کے گذرے ۷۶ سال ہوگئے، اس مدت کے دوران جموں وکشمیر میں اسمبلی اور پارلیمنٹ کے الیکشن ہوتے رہے۔ اُن سارے الیکشنوں کی اپنی ایک مخصوص ہیت اور تاریخ رہی ہے ۔ اگر اُس ہیت اور تاریخ کا آج کی تاریخ میں گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو کشمیرکے حوالہ سے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ دراصل وہ الیکشن کشمیرسے آئین اور جمہوریت کا جنازہ نکالتے رہے ہیں یہی وہ الیکشن رہے ہیں جن کی آڑ میں کشمیری عوام کے آئینی ، پیدائشی اور جمہوری حقوق سلب کئے جاتے رہے ہیں اور پھر جو کچھ منظرنامہ ۱۹۸۷ء کے تناظرمیں عوامی ردعمل کی صورت میں سامنے آیا اُس نے کشمیر کو ہی نہیں پورے ملک کو لہو لہان کرکے رکھدیا۔
الیکشن کے حوالہ سے آج کی تاریخ میںان گذرے اندھے سیاسی تجربوں، اختراعی اور بے بُنیادنریٹو اور دوسرے سیاسی اور انتظامی سطح پر لئے جاتے رہے اقدامات اور فیصلوں کو پھر سے دہرانے کی ذرہ بھر بھی کوشش کشمیرمیں خاموش ہوئے آگ کے شعلوں کو پھر سے بھڑکانے کی ایک نئی بُنیاد ڈالنے کا موجب بن سکتے ہیں۔ خدا نہ کرے وہ دن پھر سے دیکھنا پڑے۔ اقتدار آنی جانی ہے، لیکن ملک اور خطے کی سلامتی اور بقاء مقدم ہے، آئین کی بالادستی اور تقدس کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور جمہوری اداروں کا تحفظ تمام تر ازموں، پارٹیوں اور افراد کے ذاتی حقیر مفادات، نظریات چاہئے تہذیبی ہوں یا بالادستی نظریہ سے عبارت ہوں، سے بالاتر ہے ۔ ان سے معمولی انحراف ملکی اور خطے کی سلامتی کو دائو پر لگا سکتا ہے۔